کسی بھی ملک کی ترقی و استحکام کا دارومداراداروں کی
ترقی و استحکام پر منحصر ہوتا ہے ،کیونکہ ادارے آئین کے تحت منظم کئے جاتے
ہیں اور آئین کی پاسداری یہی ہے کہ اداروں کی تعظیم و حرمت اور استحکام کو
یقینی بنا یا جائے ۔ سب سے پہلے اداروں کے استحکام و اعتماد کو مرحوم
ذوالفقار علی بھٹو کی پالیسیوں نے کاری ضرب لگائی تھی ،جب تیرہ سو سے زائد
بدعنوانی کے الزام میں برطرف کر دیئے گئے تھے اور صنعتوں کو قومیایا گیا
تھا جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں ۔اداروں میں خوشامد پرستی اور عوام
میں شخصیت پرستی جیسے ناسور وں کی جڑیں مضبوط کی گئیں ۔پہلے شخصیتوں کو
مرکزیت ملی لیکن دھیرے دھیرے اب رشوت کو مرکزیت حاصل ہے ۔معاشرے اور اداروں
کا عدم استحکام کی اس سے بدترین صورت کبھی دیکھنے کو نہیں ملے گی کہ اگر آپ
کو اپنا حق لینا ہے اور اس کیلئے کسی ادارے میں استدعا کرنی ہے تو پہلے آ پ
کو کسی شخصیت کے سامنے گڑ گڑا نا ہوگا اور اسے آپ کی سفارش کرنے پر راضی
کرنا ہوگا اس کے بعد آپ کو متعلقہ ادارے میں رشوت کے گرم بازار میں تھوڑی
اور گرمی بڑھانا ہوگی تب جا کر کہیں آپ کی شنوائی ممکن ہو پائے گی اگر ایسا
نہیں ہو گا تو متعلقہ آفیسر آپ سے پہلے تو ملنے کیلئے تیار ہی نہیں ہو گا
اور اگر کوئی بڑا ہی ایمانداری کا دعویدار ایسے دعوے کر بھی دے کہ میرے
دروازے چوبیس گھنٹے عام عوام کیلئے کھلے ہیں تو عوام کو اس قدر ذلیل کر کے
بھگائے گا کہ دوبارہ اس بات کو سوچنے سے ہی عوام گھبرا اٹھے گی کہ میں
انصاف لینے کیلئے کسی ادارے کے دروازے پر دستک ہی دے دوں ۔ایسی مثالیں ہمیں
روزمرہ کی زندگی میں کئی ملتیں ہیں ،ہم محکمہ پولیس کی مثال لے سکتے ہیں ۔جب
بھی کسی ضلع میں کوئی نیا ڈی پی او آئے تو وہ بڑے دبنگ انداز میں انٹری
مارے گا ،منشیات فروشوں کو پکڑے گا ،اشہاری ملزموں کو پکڑے گا اور اس طرح
کئی کام کرے گا جو میڈیا پر عوام الناس کے سامنے لائے جاتے ہیں جس سے یہ
تاثر پڑتا ہے کہ یہ ضلعی پولیس آفیسر بڑا یماندا ر اور خدا ترس بندہ ہے آتے
ہی مجرموں کے خلاف ایسا گھیرا تنگ کیا ہے کہ انہیں کہیں بھی نکلنے کا موقع
نہیں مل پا رہا ۔لیکن کیا کبھی کسی نے یہ بھی بتایا ہے کہ جو ملزم یا
اشتہاری پکڑے گئے تھے ان کے ساتھ کیا کیا گیا ؟ انہیں کسی انجام تک بھی
پہنچایا گیا ؟پھر ہم انہی مجرموں کو دیکھتے ہیں کہ ہمارے درمیان دندناتے
پھرتے ہیں لیکن اس کی پشت میں حقیقت کیا ہوتی ہے اس پر روشنی ڈالنے کی
ضرورت ہے ۔اصل میں ہوتا یہ ہے کہ کسی بھی علاقے کا چوکی انچارج یا مہتمم
تھانہ کو اپنے علاقے میں ہونے والے نہ صرف تمام جرائم کی آگہی ہوتی ہے بلکہ
وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس میں کون کس حد تک پھنسا ہوا ہے ،اس طرح سے
تھانوں میں دلالوں کی آمدو رفت بھی لگی رہتی ہے گویا تھانے یا چوکیاں نہیں
بلکہ کوئی قحبہ خانے چل رہے ہوں ۔پھر جب ایک ضلعی پولیس آفیسر تبدیل ہوتا
ہے اور اس کی جگہ دوسرا آتا ہے تو تھانوں اور چوکیوں کے انچارج ان میں چند
کمزور مجرموں کو پکڑ کر حوالات میں بند کر دیتے ہیں جس سے آفیسر کے سامنے
بلے بلے شاوا شاوا بن گئی اور یوں ایک پہیہ جو اتر گیا تھا دوبارہ اس گاڑی
میں لگ جاتا ہے ۔وہی رشوت کا بازار اور وہی شخصیتوں کی آماجگاہ، قحبہ خانوں
کے مناظر ۔لوگ سمجھتے ہیں کہ ضلعی پولیس آفیسر بہت ہی ایماندار ہے یہ ہمارے
لئے ضرور کچھ کرے گا اور ہمیں انصاف دلائے گا اور وہ اپنے دیرینہ مسائل لے
کر ڈی پی او کے پا س ایک سفید کاغذ پر اپنی مجبوریوں اور اپنے ساتھ ہوئیں
نا انصافیوں کو رقم کر کے استدعا کی صورت میں پیش کرتے ہیں لیکن ڈی پی او
صاحب اسے پڑھنا تک گوارا نہیں کرتے ،اور بڑے ہی اچھے لیکن تیکھے لہجے میں
پوچھتے ہیں جی بتائیں کیا مسئلہ ہے آپ کا!! اب اگر وہ شخص آپ بیتی سنانے
لگے تو ان کی اہلیت جاگ جاتی ہے اور محض قیاس آرائیوں سے اس کی بات سنے
بغیر ہی فیصلے سنانے لگتے ہیں ۔ کسی کو کہتے ہیں یہ ہمارے ادارے کا کیس ہی
نہیں تو کسی کو کہا جاؤ بھائی نا اپنا وقت برباد کرو نا ہمارا ،اور اگر
کوئی توجہ دلانے کی کوشش کرے تو اس کے ساتھ بد تہذیبی پر اتر آتے ہیں اور
اس قدر اس کو ذلیل کرتے ہیں کہ وہ شخص دوبارہ نا آنے کی قسم کھا لے ۔حال ہی
میں ہاؤسنگ سکیم کے نام پر لوگوں کے ساتھ فراڈ ہو گیا ان سے پیسے ہتھیا کر
خالی اشٹام پیپر اور رسیدیں دے کر ہاؤسنگ سکیم کا مالک روپوش ہو گیا ۔ایک
جوان عرضی لے کر ڈی پی او کے پاس پہنچا کہ ہمارے ساتھ ظلم ہوا بندہ فراڈ کر
کے فرار ہو گیا ہے جبکہ اراضی سنٹر پر اس کے نام پر کوئی زمین بھی نہیں ہے،
ملزم کو پکڑ کر اس سے ہمیں زمین دلوائی جائے یا ہمارے پیسے دلوائیں جائیں
تو ڈی پی او صاحب اس بندے سے کہتے ہیں کہ تم اتنے لاشعور لوگ ہو کہ تم نے
بغیر سوچے سمجھے اس کو پیسے دے دئیے اور اب وہ فرار ہو گیا ہے اس میں قصور
پولیس محکمے کا ہو گیا ہے؟ یہ پولیس محکمے کا کیس نہیں ہے اور نا ہی ہم آپ
کی کوئی مدد کر سکتے ہیں! یہ جملہ اس ڈی پی او کی اہلیت کو مشکوک کرتا ہے
کیونکہ سبھی جانتے ہیں کہ فراڈ اور دھوکہ دہی سمیت دیگر جرائم محکمے پولیس
نے ہی کنٹرول کرنے ہیں ، اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس شخص کے ساتھ ڈی پی او
نے اس قسم کی بدتہذیبی اور تذلیل کے ساتھ اسے اپنی وردی کے دھونس کا عتاب
بنایا وہ تو یہی سوچتا ہو گا ، کہ ہمیں انصاف کبھی نہیں مل سکتا اور وہ جا
کر اس فراڈ کرنے والے شخص کے اہلخانہ میں سے کسی فرد کو پکڑ کر مارے یا
اغواہ کر لے تو پھر تو پولیس کیس بن جائے گا! محکمہ پولیس کے اعلیٰ افسران
اپنے فرائض کو ہی نہیں سمجھتے تو ان سے جرائم کی روک تھام کی امید ہی کیا
رکھی جا سکتی ہے؟ یاد رہے کہ معاشرے کی تعمیر و استحکام کا تقاضا یہ ہے کہ
مقتدر و اشراف طبقہ انسانوں کو انسان تسلیم کرے ۔اور ادارے محض قیاس
آرائیوں سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے مستحکم ہوتے ہیں ،کوئی کسی کے دل کی
نہیں جانتا اس کیلئے انصاف کے تقاضے بروئے کا ر لائے جانے چاہئیں ۔ |