جہان کائنات میں لمحوں میں چیزیں بدل جاتی ہیں،کائنات کی
اس وسیع وعریض فضامیں تغیرات کاہونامعمول کی بات ہے،ہردم بدلتی اس دنیامیں
کسی چیزکوقرارنہیں،آج جس کانام ہے کل وہ بے نام ہوجاتاہے،کل تک جس کے نام
کے سکے چلتے تھے آج ان کے مرقدوں پرکوئی چراغ جلانے والابھی نہیں
ملتامگر!اسی خاکدان گیتی میں کچھ بندگان خداایسے بھی ہوتے ہیں جن کی زندگی
جتنی روشن وتابناک رہی بعدوصال بھی ان کی تابانی میں سرموفرق نہیں
آیا،انہیں نابغہ روزگارشخصیتوں میں رئیس القلم،قائداہلسنت،بانی مساجدومدارس
کثیرہ،فاتح ایشیاویورپ حضرت علامہ مولاناارشدالقادری علیہ الرحمۃ والرضوان
(بانی جامعہ فیض العلوم وادارہ شرعیہ جمشیدپور-جھارکھنڈ)کی شخصیت بڑی
منفرداورمثالی شان کی ہے۔جن کے زریں کارنامے انہیں کبھی فراموش نہیں کریں
گے۔بلکہ آپ کی یادرہتی دنیاتک رہے گی۔اورآپ کے کارنامے آپ کوتاقیام قیامت
زندہ رکھیں گے۔یوں توآپ کی حیات کاہرگوشہ قابل رشک ہے مگرجامعہ فیض العلوم
جمشیدپوران کاایسایادگاری کارنامہ ہے جودنیاوی شہرت اورتوشۂ آخرت کے لئے
متاع گراں مایہ ہے۔
آپؒ کاشمارملت اسلامیہ کے ان چندمشاہیرمستندومعتبرعلماء وَدانشوران ملت میں
ہوتاہے جنہوں نے ملت اسلامیہ کی شیرازہ بندی میں کلیدی کرداراداکیا۔حضرت
علامہ بے شمارخوبیوں کے مالک تھے ان کی ہمہ گیراورہشت پہلوشخصیت نے کتنے ہی
ذرّوں کوآفتاب اورجگنوؤں کو ماہتاب بنادیا۔وہ صحراکوگلستاں بنانے میں اپنی
مثال آپ تھے انہوں نے پہاڑکھودکردودھ کی نہرنکالنے کامحاورہ سچ کردکھایا۔
حضرت علامہ کی مشکل پسندطبیعت نے دینی اورملی کام کے لئے ہمیشہ ایسی وادیوں
کاانتخاب کیاجہاں صرف جنون عشق ہی کام آسکتاتھاوہ راہ کی دشواریوں کو حوصلہ
شکنی کا سبب نہیں بلکہ حصول منزل کاذریعہ بناتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی
آبلہ پائی اُنہیں سرگرم سفررکھتی تھی۔آپ ایک ایسے ہمہ جہت عالم دین تھے کہ
دوردُورتک ان کاکوئی مماثل نظرنہیں آتا۔حیات کاوہ کون ساگوشہ ہے جس سے یہ
مردخداآگاہ وخودآگاہ جہت آشنانہ ہو۔قوم مسلم کی اصلاح وتربیت اوران کے
تزکیۂ نفس کے لئے آپ نے ہرجہت سے اپنے تحریکی عمل کوجاری رکھا۔قوم مسلم میں
فکراسلامی کی صحیح اسپرٹ پیداکرنے کے لئے خطابت وصحافت کی خدادادصلاحیتوں
کاخوب خوب استعمال کیا۔اﷲ تباروتعالیٰ نے آپ کوزبان وقلم پہ یکساں قدرت
عطافرمائی تھی۔آپ نے تصوف ،مذہب،اخلاق،تاریخ ،فلسفہ،سیاست،سوانح،تحقیق
وتنقیدہرموضوع پراپنے خاصۂ زرنگارکومصروف رکھااورتمام مضامین میں
ترتیب،تہذیب،استدلال،وضاحت،فراست ومتانت اورتنقیدی شعورکی بالیدگی
نمایانظرآتی ہے۔ان اوصاف کے علاوہ جوخاص اورسب سے اہم وصف آپ کی نثرنگاری
کاہے وہ لطف مطالعہ یعنی (Read ability) آپ کی نثریقیناً نثرنگاری کاعمدہ
قراردئے جانے کے لائق ہے۔اردوزبان میں آپ کی دودرجن سے زائدتصانیف ،متعددکتب
پرمقدمہ وَتقریظ ،جام نور،جام کوثر،رفاقت،شان ملت کے علاوہ ملک کے مختلف
جرائد ورسائل میں آپ کے شہ پارے آپ کی ادبی حیثیت کے تعین کے لئے بہت کافی
ہیں۔
آپ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ آپ کانام نامی اسم گرامی خودایک
تعارف ہے۔آپ کااصلی نام ''غلام رشید''ہے لیکن قلمی نام ارشدالقادری سے
مشہورہے ۔آپ کے والدمحترم کانام عبداللطیف رشیدی ہے۔آپ کی ولادت5 ؍مارچ
1925ء اترپردیش کے ضلع بلیاکے ''سیدپورہ گاؤں'' میں ہوئی۔ابتدائی تعلیم
گھرکے علمی ماحول میں حاصل کی،پھرتقریباًآٹھ سال حضورحافظ ملت
مولاناعبدالعزیزمحدث مرادآبادیؒ بانی الجامعۃ الاشرفیہ ،مبارکپور کی آغوش
تربیت میں رہ کراکتساب علم کیا۔1944 ء میں دارالعلوم اشرفیہ کے سالانہ جلسۂ
دستاربندی میں آپ کوسندفضیلت سے نوازاگیا۔اس کے بعدآپ تدریسی خدمات انجام
دینے کے لئے حضورحافظ ملتؒ کے حکم وایماء پرناگپورپھروہاں سے 1952 ء میں
جمشیدپورتشریف لے آئے۔نصف صدی سے زائد پرمحیط تدریسی دورمیں ہزاروں طلباء
نے آپ سے اکتساب علم کیا۔آپ ایک صاحب طرزادیب ہونے کے ساتھ ساتھ تحقیقی ذہن
وفکررکھنے والے صاحب قلم بھی تھے۔آپ کی نثرمیں بہت زیادہ جاذبیت وکشش پائی
جاتی ہے۔میرے اس دعوے کی واضح دلیل آپ کی تین درجن سے زائد تصنیفات
وتالیفات ہیں جن میں ''زلزلہ،زیروزبر،لالہ زار،شخصیات ''وغیرہ خاص
طورپرقابل ذکرہیں۔
آپ نے پورے ملک میں مدارس ومساجدکاایک جال بچھادیاہے یہاں تک کہ ملک سے
باہربھی آپ نے کئی ادارے قائم کیے ہیں۔جن کی مجموعی تعدادتین درجن سے
زائدہے جن میں جامعہ حضرت نظام الدین اولیاء دہلی،ادارۂ شرعیہ،عالمی
دعوتی،اصلاحی تحریک دعوت اسلامی،ورلڈاسلامک مشن لندن،جامعہ مدینۃ الاسلام
ہالینڈ،دارالعلوم علیمیہ سورینام امریکہ،جامعہ فیض العلوم جمشیدپوراورجامعہ
حضرت بلال بنگلوروغیرہ کاقیام آپ کے زرین کارنامے ہیں۔انہوں نے
ملی،جماعتی،مفادمیں ملک وبیرون ملک سینکڑوں مضبوط ومستحکم قلعہ تعمیرکرنے
کے باوجوداپنے اوراپنے اہل وعیال کے لئے ایک جھونپڑی بھی نہیں بنایا۔یہیں
سے ان کی للّٰہیت اوربے لوث خدمات کاپتہ چلتاہے،آج کے مادیت زدہ دَورمیں
تبلیغ وَاشاعت دین کاکام کرنے والوں کے لئے آپ کایہ عدیم المثال یقیناقابل
تقلیدہے۔
فکروفن ،علم وادب،قرطاس وقلم کاروشن وتابناک یہ آفتاب 15؍صفرالمظفر1423ہجری
29-اپریل 2002ء بروزبدھ شام 4؍بج کر35؍منٹ پرہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا۔ (اِناللّٰہ
واِناالیہ راجعون)آپ کامزارِمبارک جمشیدپور کی سرزمین پر(جھارکھنڈ)میں مرجع
خلائق ہے۔جہاں ہرسال 15؍صفرکوآپ کامبارک عرس نہایت ہی تزک واحتشام کے ساتھ
منعقدہوتاہے اورہزاروں کی تعدادمیں لوگ آپ کی بارگاہ میں خراج عقیدت پیش
کرنے کے لئے حاضرہوتے ہیں اورفیوض وبرکات سے مالامال ہوتے ہیں۔
قائد اہلسنت کی شخصیت بڑی ہمہ جہت اورجذبہ وعمل سے بھرپورتھی،اکیسویں صدی
عیسوی کے اوائل تک ملک کی تاریخ پران کے اثرات اس قدروسیع اورگہرے ہیں کہ
ان کے تذکرے کے بغیرہرتاریخ ادھوری رہ جائے گی۔زندگی کے ہرمیدان میں آپ نے
لوگوں کومتاثرکیا،ملت اسلامیہ پرآپ کے بے شماراحسانات ہیں،لہٰذاہم اپنے
قائد ومحسن کی بارگامیں گلہائے محبت اورخراج عقیدت پیش کریں اوراس
کابہترطریقہ یہ ہے کہ ان کی یادگاروں کونہ صرف باقی رکھی جائے بلکہ اُنہیں
بام عروج تک پہنچانے کی ہرممکن کوشش کی جائے،ان کی تصنیفات وتالیفات
کودنیاکے مختلف مشہورومعروف زبانوں میں منتقل کرکے عام کردی جائے۔آخرمیں
مولیٰ تعالیٰ کی بارگاہ عالی جاہ میں دعاء گوہوں کہ آپؒ کافیضان ہم تمام
مسلمانوں پرتاقیامت جاری وساری فرمااوران نفوس قدسیہ کی سچی الفت و محبت
عطافرما۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اﷲ علیہ وسلم۔
ابرِ رحمت ان کے مرقدپرگہرباری کرے
حشرتک شان کریمی نازبرداری کرے |