خوابیدہ امریکی حسن؛ فے ایمرسن

یہ چہرہ ان دنوں کی یاد ہے، جب حسن خوابیدہ ہوا کرتا تھا، جسم کی نمائش سے زیادہ، تخیل دل پذیر تھا۔ چہرے کے خدو خال ہی احساسات کی ترجمانی بھی کیا کرتے تھے۔ دل کے نہاں خانوں میں موجود بات، تصور کے زور پر بیان ہو جایا کرتی تھی۔ نمود و نمائش کی بجائے، ادائیں زینت بنا کرتی تھیں۔ اسی ماحول میں یہ چہرہ مغربی دنیا میں مقبول ہو کر شائقین کے دلوں پرکئی دہائیوں تک راج کرتارہا۔کلاسیکی حسن کی آبرو، بلیک اینڈ وائٹ دور کی خوبصورت علامت کا دوسرا نام’’فے ایمرسن۔Faye Emerson‘‘ ہے۔

بشکریہ ہماری ویب

ٹیکساس کی ایک عدالت میں بیٹھے، اسٹینو گرافر ملازم نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ایک وقت آئے گا، مریکی صدر کا بیٹا اس کا داماد ہوگا، مگر یہ سچ ثابت ہوا، جب اس کی حسین اور ذہین بیٹی 1917 کو اس کے گھر پیدا ہوئی۔ حُسن ہو تو نزاکت آہی جاتی ہے، ابتداسے ہی اس کے حسن میں ایک نزاکت اور اعتماد تھا، جس میں تمام زندگی رتی برابر فرق نہ آیا۔ امریکی دیہات میں پیدا ہونے والی اس خاتون نے یہ بہت جلدی سمجھا کہ ترقی کے زینے چڑھنے کے لیے کس سمت جانا ضروری ہے،لہٰذا آبائی علاقے کو خیر باد کہا، دوسری جنگ عظیم کے برپا ہونے سے قبل، کیلی فورنیا، سان ڈیاگو کی ہالی ووڈ نگری میں ڈیرے ڈال لیے۔

اس نے سان ڈیاگو میں رہتے ہوئے اعلی تعلیمی اداروں میں اپنی تعلیم مکمل کی، وہیں غیرنصابی سرگرمیوں میں بالخصوص اداکاری کے ساتھ خود کو جوڑے رکھا، 1935 میں زمانہ طالب علمی کے دور میں اپناپہلا کھیلRusset Mantleکھیلا۔ باقاعدہ کیرئیر کی ابتداکا سال 1940 تھا۔ ایک طرف دنیا کی عظیم طاقتیں آپس میں دست وگریباں ہونے کو تیار تھیں، تو دوسری طرف اس حسینہ نے بھی زندگی کی لڑائی میں حتمی محاذ پر جنگ لڑنے کا فیصلہ کرلیاتھا، اگلے کچھ برسوں میں یہ جنگیں کامیاب ہوئیں، ایک طرف اس کا وطن امریکا فتح یاب ہوا تو دوسری جانب اس نے شائقین کے دل جیت لیے۔ اس کی وضع دار شخصیت اور ذہانت سے بھرپور شخصیت نے اپنے تاثر کو ایسا جمایا، آنے والے کئی برسوں تک شائقین اس سحر میں گرفتار رہے۔

’’فے ایمرسن۔Faye Emerson‘‘ کو ابتدائی طور پر کچھ ایسی فلمیں مل گئیں، جن کی وجہ سے بہت جلد وہ اپنی شناخت بنانے میں کامیاب رہی، ان میں سے1944میں ریلیز ہونے والی فلم The Mask of Dimitrios ہے۔ 1945میں Danger Signal اور 1950میں ریلیز ہونے والی فلمDanger Signal نے اس کو فلمی صنعت میں مزید کامیابی کی طرف دھکیل دیا۔حیرت کی بات یہ ہے، اس کو ایکشن اور جرائم پرمبنی فلموں کی فنکارہ کے طور پر شہرت حاصل ہوئی، جس میں شخصی حسن کادخل کم اور موضوعاتی دہشت کا عمل زیادہ تھا۔

اس کی دیگر معروف فلموں میں جنہیں شمار کیا جاتا ہے، ان میں Nobody Lives Forever اورCrime by Night سمیت Murder in the Big House اور دیگر شامل ہیں۔ اس نے طویل فنی رفاقت کے لیے Warner Brothersاور Paramount پروڈکشن ہائوسز میں سے پہلے والے کو چنا ، سب سے زیادہ کام ان کی فلموں میں کام کیا۔ فلم کے شعبے سے ٹیلی وژن کی طرف آتے آتے اس نے ایک مختصر دور تھیٹر سے وابستگی کا بھی گزارا، مگراس میں یہ کامیابی نہ سمیٹ سکی اور پھر یہ کلی طورپر ٹیلی وژن کی طرف آگئی۔ ٹیلی وژن کے کیرئیر کاآغاز کامیابی سے ہوا۔

اس زمانے کوٹیلی وژن کا مشکل دوربھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ ،جب اس شعبے میں خواتین نہ ہونے کے برابر تھیں، اس نے نہایت اعتماد سے کام کیا، بعد میں وقت نے ثابت کیا، یہ واقعی باصلاحیت اور ذہین تھی ۔ 1948 کو ٹیلی وژن کے شعبے میں اس نے کئی معروف پروگراموں کی میزبانی کی، اپنے حسن کا جلوہ بھی دکھایا، ان میں سرفہرست ،جن پروگراموں کو بہت شہرت حاصل ہوئی، ان میں The Chevrolet Tele-Theatre جیسے پروگرام شامل ہیں، اسی طرح The Philco Television Playhouse کو بہت پسند کیا گیا۔

اس کی شہرت دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں پھیل گئی، یوں شوبز کی دنیا میں اس کانام ایک ستارے کی مانند چمکنے لگا ، جس کی پرچھائیاں اس کے حسن پر بھی مرتب ہوئیں اور اس کا حسن مزید نکھر گیا۔ 1950 تک دوسال کی قلیل مدت میں نے اس نے اپنے نام کا ڈنکا بجا دیا، اسی ٹیلی وژن پر اس کے نام سے بھی شوآن ایئر ہوتا رہا، جس نے اس کو عالمگیر شہرت عطا کی ، آگے چل کر یہ شہرت اتنی کام آئی کہ اس کی رسائی امریکی حکمرانوں کے ایوانوں تک ہوئی۔ اگلے کئی برس اس کی حکمرانی ٹیلی وژن پر برقرار رہی، اس کو ’’The First Lady of Television‘‘ کاخطاب بھی دیا گیا تھا، کیونکہ اس نے ان اولین ٹاک شوز کی میزبانی کی، جو پہلی مرتبہ رات گئے نشر ہوتے تھے۔ یہ اس کی کامیابی کا سنہرا ترین دور تھا۔ 1960میں اسے’’ہالی ووڈ واک آف فیم‘‘ کے ستاروں میں بھی شامل کر لیا گیا۔

’’فے ایمرسن۔Faye Emerson‘‘ کو متعدد محبتیں ہوئیں، مگر شادیاں صرف تین کیں، جن میں 1938میں William Crawford سے پہلی شادی تھی، یہ زیادہ عرصہ برقرارنہ رہ سکی، اس عرصے میں یہ امریکی صدر Franklin D. Rooseveltکے صاحب زادے Elliott Roosevelt سے ملی جو عسکری اور سول کئی طرح کے اہم عہدوں پر فائز رہے، ان سے دوسری شادی کی۔ اس شادی کے ذریعے، اس نے امریکی حکمران طبقے تک اپنے تعلقات کا راستہ ہموار کر لیا۔ اس وقت کے اہم وفود میں اپنے شوہر اور امریکی صدر، سسر کی وجہ سے شامل رہی، دنیابھر کی اہم سیاسی شخصیات سے بھی ملاقاتیں ہوئیں، پانچ برس تک اس کی یہ مصروفیات شوبز کی ترجیحات پر حاوی رہیں۔ اس نے یہ اعلان بھی کیا، یہ شوبز ترک کردے گی، جبکہ اس وقت کئی ایک فلمیں نمائش کی جانے والی تھیں، جن میں Juke Girl اورLady Gangster کے علاوہ Destination Tokyo جیسی فلموں کے علاوہ کئی فنی منصوبے زیرتکمیل تھے۔
یہ وہ زمانہ ہے، جب دوسری جنگ عظیم کے بادل امریکیوں کے سر پر منڈلا رہے تھے، اس فضا میں یہ حسینہ ایک فوجی کو عاشق بنانے میں کامیاب رہی ، اس عاشق نے اپنے جنگی جہاز کانام بھی محبوبہ کے نام پر رکھ چھوڑا، اس کے باوجودیہ عاشقی زیادہ عرصے تک نہ چل پائی۔ دونوں شوہروں سے اس کی ایک ایک اولاد پیداہوئی، پھر تیسری شادی کے لیے اس کی نگاہ انتخاب شوبزپر ہی ٹھہری، اس نے ایک میوزک بینڈ کے سربراہ اور پیانو بجانے والے Skitch Henderson سے شادی کرہی لی۔ عاشقانہ طبیعت نے اس کو تمام زندگی مضطرب رکھا۔

اس حسینہ نے اپنے فنی کیرئیر میں تقریباً 30 فلموں اور درجنوں ٹیلی وژن شوز اور کمرشلز میں کام کیا۔کئی معاشقے کیے اور شادیاں کیں۔ اپنی زندگی کو خوب جی کر 1983کو65سال کی عمرمیں اس دنیا سے رخت سفر باندھا۔ ایک دیہات سے زندگی کی ابتدا کرنے والی اس حسین عورت نے سادے صفحہ جیسی زندگی میں، اپنی مرضی کے رنگ بھرے اور خوب بھرے، رنگین زندگی گزار کر امر ہوئی، اپنی زندگی کے آخری برس اسپین میں گزارے۔پہلے شوہر سے پیدا ہونے والے بیٹے نے، اس ڈھلتی زندگی کے کمزور دنوں میں اسے سہارا دیا۔

آج بھی اس کی مسکان میں ایک وقار اور طمانیت محسوس ہوتا ہے، کیونکہ اس کی تصویریں بھی بولتی ہیں۔ چہرے بہت ہوں گے، مگر یہ چہرہ امریکی شوبز میں اتنی آسانی سے فراموش نہیں کیا جا سکے گاکیونکہ اس کی مسکان میں ایک جادو ہے۔ اس کی زندگی کے منظر نامے پر امریکا کی فنی داستان اور سیاسی کہانیاں بھی درج ہیں، جن کو باریک بینی سے سمجھ کر پڑھا اورمحسوس کیا جا سکتا ہے۔
 
Dr. Shakira Nandini
About the Author: Dr. Shakira Nandini Read More Articles by Dr. Shakira Nandini: 203 Articles with 212004 views I am settled in Portugal. My father was belong to Lahore, He was Migrated Muslim, formerly from Bangalore, India and my beloved (late) mother was con.. View More