چوہدری لیاقت مرحوم٬ دوستی اور رفاقت کے 32 سال

انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ چوہدری لیاقت ہمارے درمیان اب نہیں رہے مگر وہ ہمیشہ ہمارے دلوں میں رہیں گے۔ ابھی چند دن پہلے کی بات ہے اس بیماری میں بھی کہیں جا رہے تھے تو جیسے ہی بھون چوک پر مجھ پر نظر پڑی تو ڈرائیور کو اپنی گاڑی روکنے کو کہا۔ میں آگے بڑھ کر ملا تو میں نے محسوس کیا جیسے وہ چاہ رہے ہوں کہ گاڑی سے نیچے اُتر کر ملیں۔ میں نے کہا چوہدری صاحب آپ بہت بیمار ہیں۔ میرا حال احوال پوچھا۔ شرافت کے علمبردار لوگوں کی یہی باتیں اُن کو بھولنے نہیں دیتیں۔ 1985ء میں سیاسی سفر کا آغاز کیا تو جہاں سے آغاز کیا وہیں پر ختم کر کے چلے گئے۔ روزانہ پارٹیاں بدلنا اُن کا شیوہ نہ تھا۔ مسلم لیگ (ن) پر جیسے بھی حالات آئے انہوں نے جماعت کو نہ چھوڑا یہاں تک کہ پرویز مشرف کے سخت دور میں مسلم لیگ (ن) پر بہت مشکل وقت تھا مگر اُس دور میں بھی چٹان کی طرح ڈٹے رہے۔ جماعت کو چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اپنی رہائش گاہ میں قائم مسلم لیگ (ن) سیکرٹریٹ قائم کیا جو اب تک چل رہا ہے اور شاید قیامت تک چلتا رہے گا۔ جو بھی آیا، جو بھی کام کہا کر دیا۔ کبھی سائل سے یہ نہ پوچھا کہ آپ کا تعلق کس پارٹی سے ہے یا آپ کس کو ووٹ دیتے ہیں۔ اُن کے اندر بے پناہ خوبیاں تھیں۔ کبھی بھی لڑائی جھگڑے میں نہیں پڑتے تھے۔ سیاست میں شرافت کی سیاست کو اپنا شعار بنایا۔ کبھی اپنے مخالفین کے بارے میں بھی بُرا نہیں سوچا۔ میں جب اظہار تعزیت کے لئے اُن کی رہائش گاہ پہنچا تو میری ملاقات اُن کے دونوں بیٹوں یعنی چوہدری حیدر سلطان اور چوہدری شہریار سلطان سے ہوئی۔ اس کے علاوہ میرے رُوحانی اُستاد اور کئی کتابوں کے مصنف قمر اقبال صوفی (مرحوم ان کے بہنوئی تھے) بھی وہاں موجود تھے۔ چوہدری سجاد احمد خان چیئرمین میونسپل کمیٹی چکوال اور مرحوم کے دوست چوہدری غلام مرتضیٰ بھی اظہار تعزیت میں شامل تھے۔ مجھے بطورِ خاص چوہدری غلام مرتضیٰ نے چند باتیں بتانا ضروری سمجھا۔ وہ کہنے لگے کہ جب مرحوم چوہدری لیاقت نے 1985ء میں سیاسی سفر کا آغاز کیا اُس وقت سے میری دوست اُن کے ساتھ قائم ہے۔ وہ جب اپنے دوست کے بارے میں باتیں کر رہے تھے تو آنسو اُن کے قابو میں نہ تھے۔ وہ مجھے چوہدری صاحب کی وفات سے ایک دن پہلے کی روداد سنانے لگے۔ وہ کہنے لگے کہ میں صبح ہی حویلی آگیا تھا۔ چوہدری صاحب کے پاس بیٹھ گیا۔ وہ مجھ سے بہت باتیں کرتے رہے، پورا دن گزر گیا۔ دن کا کھانا بھی کھایا، شام کے سائے ڈھلنے لگے، کئی بار اجازت لینے کی کوشش کی پھر ہاتھ کے اشارے سے کہتے کہ بیٹھ جاؤ۔ آہستہ آہستہ گفتگو کرتے تھے۔ پھر اجازت چاہی۔ مجھے حویلی میں پانچ بج گئے۔ میں چلا گیا مگر مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ آج آخری ملاقات ثابت ہو گی۔ وہ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ اُن کی باتیں، اُن کا طرزِ زندگی، اُن کی شرافت، شائستگی سب کچھ بہت یاد آتا ہے۔ چوہدری غلام مرتضیٰ بتاتے ہیں کہ وہ اکثر جہاں بھی جاتے تو مجھے ساتھ لے جاتے۔ اُن کے ساتھ سفر کرنا، اُن کے ساتھ وقت گذارنا بہت اچھا لگتا تھا۔ زندگی کے اتنے سال گذر گئے پتہ ہی نہ چلا اور حقیقت یہ ہے کہ اُن کا نمازِ جنازہ بھی اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ وہ کتنے اچھے انسان تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں کسی کا جنازہ شاید ہی نہ پڑھا ہو وہ ہر جگہ پہنچ جاتے تھے۔ اپنی زندگی کو بھرپور گذار کر وہ دُنیا سے کوچ کر گئے اور یقینا ایک دن ہم سب نے چلے جانا ہے۔ اُن کے تاریخی جنازے کے موقع پر ایک بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ اُن کے بیٹے چوہدری حیدر سلطان نے نمازِ جنازہ سے قبل تمام لوگوں سے ہمدردانہ اپیل بھی کر دی اور یقینا یہ بڑے پن کا ثبوت ہے۔ آخر میں میری خواہش بھی ہے اور دُعا بھی ہے کہ اُن کے دونوں بیٹے چوہدری حیدر سلطان اور چوہدری شہریار سلطان دونوں اُن کے سیاسی نقش قدم پر چلیں۔ شرافت کی سیاست کو جاری رکھیں، عوامی خدمت کا مشن تھامے رکھیں، سیاسی مسائل کو اُن کی طرح حل کرنے کی کوشش کریں۔ یقینا ضمنی الیکشن ان کے لئے پہلے چیلنج ہو گا۔ انشاء اﷲ اس موضوع پر اگلے کالم میں تفصیلاً ذکر کروں گا۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔
Javed Iqbal Anjum
About the Author: Javed Iqbal Anjum Read More Articles by Javed Iqbal Anjum: 79 Articles with 56691 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.