یہ 80 کی دہائی کا درمیان عرصہ تھا ۔
انڈین گجرات کے جمان گڑھ ائر فیلڈ پر اسرائیلی جہازوں کا ایک سکواڈرن
پاکستان کے کہوٹہ ایٹمی پلانٹ پر حملہ کرنے کے لیے بلکل تیار تھا ۔
انہوں نے پاکستان کا ایک بڑا مسافر بردار جہاز گرانے کا ارادہ کیا تھا جو
صبح سویرے بحر ہند کے اوپر سے پرواز کرتا ہوا اسلام آباد جانے والا تھا ۔
ان کا پلان تھا کہ وہ ایک کومبیٹ یا ٹائٹ گروپکی شکل میں پرواز کرتے ہوئے
پاکستان میں داخل ہونگے تاکہ پاکستانی ریڈارز کو دھوکہ دیا جا سکے اور
ریڈار آپریٹرز یہ سمجھیں کہ
شائد یہ کوئی ایک ہی بڑا مسافر بردار جہاز ہے ۔
پھر وہ کہوٹہ پر بمباری کر کے اسکو تباہ کر دینگے اور وہاں سے سیدھے جموں
کشمیر جاکر ری فیولنگ کرینگے اور نکل جائینگے !
کہا جاتا ہے کہ اس حملے کی اطلاع جنرل ضیاء الحق رحمتہ اللہ علیہ کو
پاکستان کی کسی روحانی شخصیت نے دی تھی ۔
میں نے تبلیغی حلقوں میں یہ بات سنی ہے کہ اسی عشرے میں ایک بار تبلیغ کے
امیر حاجی عبد الوھاب صاحب نے جنرل ضیاء الحق رحمتہ اللہ علیہ کو خبردار
کیا تھا کہ
” پاکستان کے خلاف فتنہ پیدا کیا جا رہا ہے کچھ کر لو ” ( واللہ اعلم )۔
آئی ایس آئی نے اپنی بھاگ دوڑ تیز کر دی اور بالاآخر حملے سے صرف چند
گھنٹے پہلے حملے اور سازش کا سراغ لگا لیا گیا ۔
یعنی حملہ صبح 4 بجے ہونا تھا اور جنرل ضیاءالحق رحمتہ اللہ علیہ کو رات 12
بجے اطلاع دی گئی ۔
جنرل ضیاء رحمتہ اللہ علیہ نے ساری صورت حال کا تیزی سے جائزہ لیا اور فوری
فیصلہ کیا کہ حملے کو روکا نہیں جائیگا بلکہ ناکام بنایا جائیگا تاکہ
پاکستان کو جوابی حملے کا جواز مل سکے ۔
اور فوراً ہی ایک بھرپور جوابی حملے کا پلان بنایا گیا ۔
پاکستانی ائر فورس کے تین دستے تشکیل دئیے گئے ۔
پہلے کے ذمے یہ کام تھا کہ وہ اسرائیلی جہازوں کے حملے کو ناکام بنائے اور
ان کو مار گرائے( اس معاملے میں اسرائیل کے خلاف پاکستان کا ریکارڈ 100
فیصد ہے )
دوسرے دستے کو ممبئ ٹرومبے میں موجود انڈیا کے بھا بھا نیوکلئیر پلانٹ کو
تباہ کرنے کا ٹاسک ملا ۔
جبکہ تیسرے دستے کو نجیو ڈیزرٹ میں موجود اسرائیل کے ڈیمونا نیوکلئیر پلانٹ
کو تباہ کرنے ٹاسک دیا گیا ۔
لیکن اسرائیل پر حملے میں مسئلہ یہ تھا کہ پاکستانی جہاز وہاں ری فیولنگ نہ
کر پاتے اور انکا گرنا لازمی تھا ۔
یعنی واپسی نہیں تھی اور یہ ایک فدائی مشن تھا ۔
اس کے لیے 4 جوانوں کی ضرورت تھی ۔
جب ائیر فورس کے جوانوں سے پوچھا گیا تو 10 تیار ہوگئے اور ان میں 4 کا
انتخاب کرنے کے لیے قرعہ ڈالنا پڑا ۔
ہر جوان یہ اعزاز حاصل کرنے کے لیے بے چین تھا ۔
کہا جاتا ہے کہ جنرل ضیاءالحق رحمتہ اللہ علیہ کی عظم و ہمت ،
قوت فیصلہ اور جنگی حکمت عملیوں سے خوف زدہ انڈین جنرلز اس حملےکے حق میں
نہ تھے اور اسکو خودکشی قرار دے رہے تھے ۔
انکو قائل کرنے میں اسرائیل اور اندارا گاندھی سے بہت محنت کی تھی ۔
جنرل ضیاء رحمتہ اللہ علیہ اور پاکستانی ائیر فورس شدت سے حملے کے منتظر
تھے ۔
وہ اس کو عالم اسلام کے دو بڑے دشمنوں کو انکی ایٹمی قوت سے محروم کرنے کا
ایک سنہری موقع سمجھ رہے تھے ۔
امریکی سیٹلائیٹ نے پاکستانی جہازوں کی غیر معمولی نقل و حرکت کو نوٹ کیا
اور فوراً اسرائیل اور انڈیا کو آگاہ کیا اور انہوں نے نہایت بھونڈے انداز
میں اپنے مشن سے پسپائی اختیار کرلی ۔
اسکو چھپایا بھی نہ جا سکا نتیجے میں پوری دنیا میں دونوں کی سبکی ہوئی ۔
تب ضیاءالحق رحمتہ اللہ علیہ نے اسرائیل کو خبردار کیا کہ نہ پاکستان عراق
ہے اور نہ ہی پاکستانی فوج عراقی فوج ہے۔
آئندہ ایسی کسی بھی مہم جوئی کو اسرائیل کے لیے ایک بھیانک
خواب میں تبدیل کر دیا جائیگا انشاء اللہ ۔
اللہ درجات بلند کرے ضیا الحق رحمتہ اللہ علیہ کے۔
امین۔
|