9نومبر بھی گزر گیا، قوم نے چھٹی کے لئے بہت زور
لگایا، مگر اس کی ایک چلی۔ سوشل میڈیا کی برکات سے پوری قوم نے وہ سمری بھی
ملاحظہ کی جو وزیر داخلہ کی خدمت میں پیش کی گئی تھی، وہ شعر بھی قوم نے
پڑھ لیا، جو سمری کے جواب میں لکھا گیا تھا، روایت ہے کہ یہ شعر خود وزیر
داخلہ جناب احسن اقبال نے اپنے دستِ ہنر شناس سے لکھا ہے، آپ اعلیٰ تعلیم
یافتہ ، محبِ وطن اور دیندار شخص ہیں، ناروال کے رہائشی ہونے کے ناطے یقینا
اقبال شناس بھی ہوں گے۔ انہوں نے اقبال کا ہی شعر بہت ہی حسبِ حال لکھ کر
چھٹی کے بہت سے حامیوں کو خاموش کر دیا ہے،بس کمی رہ گئی تو صرف اتنی کہ
انہوں نے ’’فراغ‘‘ کو ’’فراق‘‘ بنا دیا۔ ’’میسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو
․․․ نہیں ہے بندہ حُر کے لئے جہاں میں فراق‘‘۔ اگرچہ چھٹی ختم کرنے کا مدعا
احسن اقبال پر ہی نہیں ڈالاجاسکتا کہ یہ کام گزشتہ برس سے شروع ہے، پچھلے
سال بھی قوم گومگو کی صورت میں رہی، بہت سے لوگوں نے سکولوں اور اداروں میں
چھٹی کردی اور بہت سے سکول کھل گئے۔ اس مرتبہ بھی ہر کوئی دوسرے سے پوچھ
رہا تھا، آخر وزیرداخلہ نے اقبال کے شعر کا سہارا لیا اور بات ختم کردی۔
یومِ اقبال کی چھٹی ختم کرکے حکومت نے کوئی بڑا کارنامہ سرانجام نہیں دیا۔
اپنے ایک قومی ہیرو کی یاد میں کی جانے والی چھٹی کو یہ کہہ کر ختم کردینا
کہ چھٹیاں غلام کیا کرتے ہیں، آزاد لوگوں کو کام سے فرصت کہاں؟ ہیرو بھی
ایسے جنہوں نے پاکستان کا تصور پیش کیا، جس میں بعد میں قائداعظم اور پوری
قوم نے مل کر رنگ بھرا۔ اگر آزاد قوم کو فرصت نہیں تو گزشتہ 68سال کی جانے
والی اس دن کی چھٹی پر حکومت کو اظہارِ پشیمانی کرنا چاہیے، انہیں قوم سے
معافی مانگنی چاہیے کہ اس نے قوم کے قیمتی 68دن چھٹی کی صورت میں ضائع
کردیئے۔ اتنے دن کام کیا ہوتا تو ہم کہاں کے کہاں پہنچ جاتے۔ قائد اعظم کے
اس فرمان کے بارے میں بھی یقینا احسن اقبال صاحب اور ان کی حکومت غور
فرمائے گی جس میں انہوں نے ’’کام ، کام اور کام‘‘ کا فارمولا قوم کو دیا،
قائد کا جاری کیا ہوا یہ قولِ زریں ابھی تک ہماری نصابی کتابوں، ہمارے
سرکاری دفاتر اور اہم مقامات پر درج ہے، لوگ اسے پڑھتے اور قائد کو یاد
کرتے ہیں۔ حیرت ہے کہ ہم گزشتہ 70سالوں سے اس ہستی کے یومِ ولادت پر چھٹی
کرکے قوم کا وقت برباد کردیتے ہیں۔ یہ قائد کے فرمان کی صریحاً نافرمانی ہے،
بانی پاکستان صرف کام کا حکم دے رہے ہیں اور ہم لوگ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر
گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں۔ امید ہے احسن اقبال توجہ فرمائیں گے۔
جہاں تک یوم اقبال کے موقع پر سکول وغیرہ کھولنے کا تعلق ہے، میرا خیال ہے
کہ چھٹی سے کسی بھی واقعہ کا زیادہ تاثر نمایاں ہوتا ہے، اگر اسے معمول کے
دنوں میں لے آئیں تو وہ توجہ اس پر مبذول نہیں ہوتی جس کا وہ دن حقدار ہوتا
ہے۔ نو نومبر کو ہی لے لیں، سب کو معلوم ہے کہ یہ یومِ اقبال ہے، چند برس
بعد یہ ایک معمول کا دن ہوگا۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ اپنے ہاں
ہر ضلع میں ڈپٹی کمشنر بہادر کی صوابدید ہے کہ وہ سال میں ایک یا دو مقامی
چھٹیاں کر سکتا ہے، ہر ضلع کا ڈپٹی کمشنر اپنے اس اختیار اور صوابدید سے
بخوبی آگاہ ہوتا ہے، وہ اپنی مرضی کی بات پر ضلع بھر میں چھٹی کرتا اور
اپنی رٹ قائم کرتا ہے۔ ایسے میلوں ٹھیلوں کی چھٹی بھی دیکھنے میں آتی ہے جس
میں شہروں سے ایک فیصد آبادی بھی وہاں نہیں جاتی۔ مگر یہ سلسلہ جاری رہتا
ہے۔ کیا وزیرداخلہ اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے مقامی چھٹیوں پر پابندی
کے بارے میں بھی کوئی حکمنامہ جاری فرمائیں گے؟ سمری میں لکھے گئے شعر میں
آزاد اور غلام کا ذکر ہے، جناب! یہ قوم بہت آزاد ہوتے ہوئے بھی غلام ہے۔
یہاں کے قوانین انگریز کے دور کے چل رہے ہیں، کیا ہر تحصیل سے لے کر صوبہ
اور وفاق تک بیوروکریسی کا انداز حاکمانہ اور عوام کی حقیقت غلامانہ نہیں؟
کیا کسی عام آدمی کی مجال ہے جو کسی انتظامی سرکاری افسر کے سامنے اونچا
سانس بھی لے سکے؟ کیا وفاقی سطح پر بیرونی ممالک سے لئے جانے والے قرضے
غلامی کا طوق نہیں، جس سے حکمران عیاشیاں کرتے اور عوام خوار ورسوا ہوتے
ہیں؟ کیا ہمارے منتخب حکمران بھی عوام سے غلاموں جیسا سلوک نہیں کرتے؟ کیا
پروٹوکول میں عوام غلاموں کی طرح بلاک نہیں ہوتے؟ |