آزادیٔ ہندکا اوّلین مجاہدحضرت ٹیپوسلطان شہیدؒ

(10؍نومبرآپ ؒ کی یوم ولادت پرخصوصی تحریر)

 یوں تواس دنیامیں ہزاروں بچے جنم لیتے ہیں اورمرجاتے ہیں ،ہزاروں کلیاں کھلتی ہیں اوربادسموم کے تھپیڑوں کی تاب نہ لاکرمُرجھاجاتی ہیں،مگروہ موت جوحق اورراستی کی راہ میں آئے حیات جاوِداں بن کرآتی ہے۔ایک ایسا وطن پرست انسان،ایسا دوراندیش اورمدبرحکمراں 10نومبر1750ء کو حیدرعلی کے گھرمیں کولارضلع کے ایک گاؤں ''دیون ہلی'' میں والدہ فاطمہ بیگم کی گودمیں پیداہونے والاجہادی جذبوں سے لبریز،انصاف پسندحکمراں،روشن خیال،تعلیم یافتہ،تہجدگزار،شب زندہ دار،نوافل گزار،قرون اولیٰ کے مسلمانوں کانقش ثانی اورعظیم یادگار،نظرعقابی،جن سے غیرت وخودداری اورمومنانہ فراست کی کرنیں پھوٹ رہی ہوتی تھیں،بجلی کی چمک ،شیرکی گرج،دوستوں کے دوست،دشمنوں کے دشمن ایسی صفات کاحامل شخص دنیاجس کو مجاہداعظم،عظیم سالار،عادل سلطان،فخرہندوستان،شیرمیسور''ٹیپوسلطان حیدرؒ''کے نام سے جانتی اورپہچانتی ہے جواپنے والدکے سب سے بڑے صاحبزادے تھے،جب آپ کی عمرمبارک 15؍سال کی ہوئی توآپ نے اپنے والدمحترم کے ساتھ جنگی معاملات میں دلچسپی لینی شروع کردی تھی کیوں کہ آپ کے والدمکرم حیدرعلیؒمیسور آرمی میں ملازم تھے لہٰذاآپ گاہِ بگاہ جنگی مشقوں میں بھی حصہ لیاکرتے تھے۔

حضرت ٹیپوسلطانؒ بہت سی زبانوں پرعبوررکھتے تھے،حساب اورسائنس کاعلم آپ کے پاس وافرمقدارمیں تھا،آپ پڑھائی لکھائی کے دلدادہ تھے اورد وہزارسے زائدکتابیں مختلف موضوعات پرآپ نے اپنی ذاتی لائبریری کی زینت بنارکھی تھیں جن میں زیادہ ترجنگی،اسلامی،اخلاقی اورسائنسی موضوعات پرمشتمل تھیں۔آپ دوراندیش اورصاحب بصیرت شخص اور''ٹائیگرآف میسور''کے نام سے مشہورومعروف تھے،برٹش نے ایسٹ انڈیاکمپنی کے بہانے انڈیاپرقبضہ کرناچاہاتواسی سلسلے میں آپ نے امیرافغانستان ،فرانس اورترک سلطان سے مددمانگی کیوں کہ اس موقع پرفرنگیوں نے نظام حیدرآباداورمرہٹوں کے ساتھ اتحاد کرلیا تھامگرفرانس نے عین موقع پرساتھ چھوڑدیا اس موقع سے انگریزوں نے فائدہ اٹھایااورمرہٹوں کی مدد سے 1790ء میں تیسری بنگلورمیسورجنگ شروع کردی۔

جب انگریز اکیلے تھے توٹیپوسلطان نے اُن کو ہرایاتھا،آپ کاوہ تاریخی اورانمٹ نقوش کاحامل جملہ آج بھی وقت کے ظالم وجابراوراَوباش سلطانوں اورامریکی سامراج کی گودمیں پرورش پانے والے عیاش حکمرانوں کوجھنجھوررہاہے کہ''شیرکی ایک دن کی زندگی گیدڑکی سوسالہ زندگی سے بہترہے''ہمارے عظیم حکمراں حضرت ٹیپوسلطان حیدرؒکے اسی ایک سنہرے قول کودردِزباں اورحرزجاں بنالیں تواُمت مسلمہ کودرپیش سارے مسئلے ختم ہوسکتے ہیں۔آج برّ صغیرہندوپاک کی سرزمین ٹیپوسلطان جیسے عظیم مجاہدکے لئے ترس رہی ہے،ایک مؤ من مسلمان سمجھتاہے کہ زندگی کی ہرسانس اﷲ تبارک وتعالیٰ کی امانت ہے اوریہ امانت کسی بھی وقت اُس مالک وخالق کے سُپردکی جاسکتی ہے توکیوں نہ اس کواﷲ رب العزت کے بتائے گئے احکامات کے مطابق بسرکیاجائے۔حضرت ٹیپوسلطان ؒجواسلامی اقدارکامحافظ،آبروئے اسلام،عشق رسول کے سانچے میں ڈھلاہوامردِدرویش ،فقرغیورکاحامل،عشق جسورکی اداؤں میں زندگی کاہرلمحہ بسرکرنے والادلیر،دلبر،دل آراء،دلنواز،روشن جبیں،روشن چہرہ،روشن گُہر،روشن دماغ،روشن چراغ،آزادیٔ ہندکااوّلین مجاہداورانگریزسامراج کوشکست فاش دینے والابہادراب بھی زندہ ہے کیوں کہ قرآن کریم میں اﷲ رب العزت نے انہیں نفوسِ قدسیہ کے بارے میں ارشادفرمایا:''اورجوخداکی راہ میں مارے جائیں اُنہیں مردہ نہ کہوبلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبرنہیں''(ترجمہ:کنزالایمان،البقرہ،آیت 154)موت کے بعدہی اﷲ تعالیٰ شہداء کوحیات عطافرماتاہے،ان کی ارواح پررزق پیش کئے جاتے ہیں اُنہیں راحتیں دی جاتی ہیں ،اُن کے عمل جاری رہتے ہیں،اجروثواب بڑھتارہتاہے،حدیث پاک میں ہے کہ شہداء کی روحیں سبزپرندوں کے قالب میں جنت کی سیرکرتی اوروہاں کے میوے اورنعمتیں کھاتی ہیں۔

حضرت ٹیپوسلطانؒحلم وحیاء،عفت وعصمت ،غیرت وحمیت ،شجاعت وصلابت،رحم وکرم،عفوودرگزراورمحنت ومشقت کے پیکرتھے۔آپ کی قابلیت کاثبوت آپ کے مکاتیب ہیں جواپنی جودت وکثرت کے لحاظ سے رقعات عالمگیری سے کم نہیں۔آپ کی ریاضت اورعبادت کایہ عالم تھاکہ نوتعمیرمسجدِ اعلیٰ کی افتتاحی نمازکی امامت صاحبِ ترتیب ہونے(یعنی کبھی کوئی نمازقضانہ کرنے)کے سبب آپ نے ہی کی۔آپ کی جنگی مہارت کالوہاآپ کے دشمن بھی مانتے تھے آپ عظیم مجاہداورمردِ میدان تھے۔آپ وجاہت اوررعب ووقارکے ایک مجسّمہ تھے،حسن تدبیرکے سبب ایک مدت درازتک آپ کوناقابل شکست تصورکیاجاتارہا۔کم عمری کے زمانے ہی سے آپ اپنے والدمحترم کی فوج کاسب سے نام ورجنرل سمجھے جانے لگے تھے۔آپ کی کامل مہارت،مجاہدانہ کردار،شجاعت وبہادری کودیکھ کرلوگ حیرت واستعجاب میں پڑجاتے تھے۔

آپ ؒہرمعاملہ میں دفاعی کے بجائے اقدامی اندازاختیارکرتے تھے اوراپنی سلطنت کی سرحدوں کی حفاظت کرنے کے ساتھ ساتھ گردوپیش کے منڈلاتے ہوئے خطرات کابھی سدِّ باب کرنے کے لئے آمادہ رہتے تھے۔سلطنت کے انتظام میں رعایاکوشریک کرنے کے لئے آپ نے ایک ''مجلس وطنی''(پارلیمنٹ) قائم کی جس کانام ''زمرہ غم نہ باشد''رکھاگیا۔مطلب یہ کہ شخصی اقتدارکے بجائے مشاورتی حکومت کے قیام سے باشندگان ریاست کے دِلوں سے وہ خطرے اوراندیشے دورہوگئے جومطلق العنان بادشاہت یاآمریت سے پیداہوتے ہیں گویاکہ سلطانِ وقت ایک آئینی حکمراں تھے جنہوں نے بلافرق مذہب وملت دستوراورضابطۂ اخلاق کی مکمل پابندی کی۔آپ کاسب سے بڑاکارنامہ اٹھارہویں صدی کی ایک چھوٹی سی ریاست میں جاگیرداری کاخاتمہ اورایک قسم کی جمہورت کاآغازتھا۔بحریہ کاقیام بھی سلطان کاایک زبردست کارنامہ ہے'آپ پہلے ہندوستانی حکمراں تھے جن کو جنگوں میں سمندری راستوں کی نہ صرف اہمیت کااحساس ہوابلکہ آپ نے باضابطہ انتظام کرنے کی بھی کوشش کی۔آپ نے تیل کی دیگرمصنوعات ،صندل ،رسی اورقالین،ہاتھی دانت کاکام،نمک بنانا،اشیاء پرسونے کارنگ چڑھانا،اون،فنون لطیفہ،ریشم،روئی کی مصنوعات سلطنت خدادادکے محکمہ تعمیرات وغیرہ'غیرشرعی رسموں پربھی سلطان نے سخت گرفت کی ،منشیات ممنوع قراردی گئی۔شہروں اوردیہاتوں میں شرعی عدالتیں قائم کی گئیں۔ذات پات کے نسلی فخرپرضرب لگائی گئی۔جمعہ کے خطبوں کی اہمیت پرزوردے کرانہیں عوام کے لئے مفیدبنایاگیا۔اس مقصدکے لئے مسنون عربی خطبات کے علاوہ انہیں کاایک حصہ بناکرعام نمازیوں کی سمجھ میں آنے والی زبان مثلاًاس وقت فارسی میں منبرسے خطاب کورواج دیاگیااورلوگوں کے دینی شعورکی تربیت،احکام شریعت سے آگاہی اوراخلاقی اصلاح کے لئے نئے خطبات مرتب کرکے شائع کئے گئے۔

ٹیپوسلطان نے سرنگاپٹم کے مقام پرانگریزسامراج کوناکوں چنے چبوانے میں اہم کرداراداکیاکیوں کہ ان کی رگوں میں اس غیرت مندپاب کاخون جوش ماررہاتھاجس نے انگریز سامراج اوراس کے پٹھوں کوعبرت ناک شکست سے دوچارکیاتھا۔آپ نے ہمیشہ آبروئے مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کے سائے میں زندگی بسرکی اوراپنے قول کوسچ ثابت کردکھایاکہ ٹوٹی چٹائی پربیٹھ کرپسینہ سے شرابورعزت کے ساتھ کھائی گئی سوکھی روٹی کے ٹکڑے اورنانِ جویں فائیواسٹارہوٹلزمیں کھائے گئے بے توقیری کے مرغ مسلم اورچائنیزکھانوں سے بہترہے کیوں کہ یہی چٹائی توڑ،جہادی صفات کے حامل،مرادن حراورشاہسوار،مغربی سامراج اوران کے پٹھوں کے لئے''گردن توڑبخار''ثابت ہوتے ہیں۔آج بھی انگریزوں کے ماتھے پرسلطان ٹیپوکانام سن کرپسینہ آنے لگتاہے اوروہ کانپنے لگتے ہیں۔آپ نے ہمیشہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیرمسلموں سے بھی نہایت ہی اچھاسلوک کیا،سڑکوں کے ہرطرف جال بچھادیے گئے،بڑے بڑے پانی کے ڈیم بنادیے گئے،بہت سی فیکٹریاں لگادی گئیں،میسورمیں بہت سارے قلعے بنادیے گئے،محلات قائم کردیے گئے،برطانوی فوج نے ان کی وفات کے بعدقلعوں کوگرانااورمحلات کومٹاناشروع کردیاتاکہ ان کی عظیم یادگاروں کودیکھ کرمسلمانوں کی سوئی حمیت وغیرت جاگ نہ جائے،بنگلورمیں آج بھی سلطان ٹیپوکے دورکی عظیم یادگارقلعہ نماخوبصورت عمارت''Summer Palace''کے نام سے موجودہے جوآج بھی'' شیرمیسور''کی یادکوذہن کے بنددریچوں کوکھولنے اورتازہ کرنے میں اہم کرداراداکرتی ہے۔مسلمانوں کایہ عظیم رہنما4مئی 1799ء کومیسورکے دارالخلافہ سرنگاپٹم کے مقام پردشمنوں کے ہاتھوں شہیدہوگیا اورآپ کے والدمحترم حیدرعلیؒ اوروالدہ ٔ ماجدہ فاطمہ بیگم کے پہلومیں آپ کودفن کیاگیا۔سچ کہاتھاآپ نے کہ ''شیرکی ایک دن کی زندگی گیدڑکی سوسالہ زندگی سے بہترہے ''کاش ہمارے حکمراں بھی اس حقیقت کوسمجھ جائیں۔

محمدصدرِعالم قادری مصباحیؔ
About the Author: محمدصدرِعالم قادری مصباحیؔ Read More Articles by محمدصدرِعالم قادری مصباحیؔ: 87 Articles with 87368 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.