امین الامت : حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اﷲ تعالیٰ عنہ

حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا تعلق عرب کے مشہور اورمعزز خاندان قریش سے تھا۔سلسلہ نسب ساتویں پشت پر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے۔ آپ کا شمار ان دس صحابہ کرام ؓ میں سے ہوتا ہے جن کی نسبت حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے وہ قطعی جنتی ہیں۔ آپؓ حضرت ابوبکرصدیقؓ کی دعوت تبلیغ پر حلقہ بگوش ِاسلام ہوئے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد قریش مکہ کے ظلم و ستم سے دو مرتبہ ہجرت کرکے حبشہ تشریف لے گئے اور آخری مرتبہ مدینہ کی جانب ہجرت فرمائی جہاں پر حضرت سعد بن معادؓ کے اسلامی بھائی بنے۔

آپؓ میں جہاد کا غیر معمولی جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ شجاعت اور دلیری میں بے مثل و یکتا تھے۔ آپ کو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی قیادت میں کفار سے لڑے جانے والے تمام غزوات میں شریک ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ اس کے علاوہ بعض جنگی مہمات میں بطور سپہ سالار کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔آپ نے غزوہ بدر میں بڑی بہادری اور جانبازی کے ساتھ شرکت کی۔ اسی حق و باطل کے معرکے میں آپ کے والد کفار مکہ کی جانب سے شامل تھے۔ کئی مرتبہ آمنا سامنا ہوا لیکن آپ سامنے سے ہٹ جاتے ، جب کہ دوسری طرف والدنے آپ پر تیر و تلوار سے حملے جاری رکھے ۔ بالآخر جذبہ توحید حسب نسب پر غالب آیا اور ایک ہی وار میں اپنے والد کی گردن جسم سے علٰیحدہ کردی۔ غزوہ بدر میں بہادری کے بے مثل جوہر دکھانے اور اسلام پر قربان ہوجانے کے جذبے کو دیکھ کر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے آپ کو عشرہ مبشرہ میں شامل کیا جو قطعی جنتی ہیں۔غزوہ احد میں جب ایک موقعہ پر تیر انداز دستے کی غلطی سے مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک زخمی ہوا ۔ اور کچھ زرہ کی کڑیاں رخسار مبارک میں چبھ گئیں تو آپؓ نے اپنے دانتوں سے ان کڑیوں کو نکالا جس سے آپ کے دو دانت شہید ہوئے۔

حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نہایت پاکباز ، متقی اور منکسر المزاج انسان تھے۔ آپ خلوص اور ایثار میں ممتاز حیثیت کے مالک تھے۔ صحابہ کرامؓ میں آپ کا درجہ یہ تھا کہ جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اس دنیا سے رحلت فرماگئے تو حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرفاروقؓ نے آپ سے فرمایا۔ ’’ ہاتھ آگے بڑھاؤ ہم آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں‘‘۔ایک مرتبہ ایک جماعت نے بارگاہ نبوت میں حاضر ہوکر ایک معلم دین کی درخواست کی جو مذہبی تعلیم کے علاوہ ان کے جھگڑوں کا فیصلہ بھی کرے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے آپ کو کھڑا ہو نے کو کہا اور اس جماعت سے مخاطب ہوکر فرمایا۔ ’’ یہ امت کا امین ہے۔ اس کو میں تمہارے ساتھ کرتا ہوں ‘‘۔

آپ ؓنے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے زمانہ خلافت میں ایران اور شام کے محاذوں پر اسلامی لشکر کی قیادت کی اور خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کی جگہ آپ کو اسلامی لشکر کا سپاہ سالار مقرر کیا۔ آپ ہی کے ہاتھوں رومیوں کو شکست فاش ہوئی۔آپ ؓ کی قیادت میں جب دمشق فتح ہوا اور اسلامی لشکر محل نامی مقام پر خیمہ زن ہوا،تو رومیوں نے بھی بالکل اسلامی لشکر کے سامنے پڑاؤ ڈالا۔ انہوں نے مصالحت کے لئے پیغام بھیجا اور گفت و شنید کے لئے معاذ بن جبل ؓ کو ذمہ داری سونپی گئی۔ لیکن یہ سفارتی کوششیں ناکام رہیں۔ بعد میں رومیوں نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اﷲ تعالیٰ سے براہ راست گفتگو کے لئے اپنا آدمی بھیجا۔ جب وہ اسلامی لشکر میں پہنچا تو نہایت حیران ہوا، کیوں کہ یہاں امیر و غریب اور چھوٹے و بڑے میں کوئی تمیز نہیں تھی۔سب ایک ہی رنگ میں موجود تھے۔ اُس نے حیرانگی کے عالم میں پوچھا کہ تمہاراکمانڈر کون ہے۔ تو لوگوں نے آپ ؓ کی طرف اشارہ کیا ۔ اس وقت آپؓ زمین پر بیٹھے تھے۔ ’’کیا آپ کمانڈر ہیں؟‘‘۔ اُس نے حیرت سے پوچھا۔’’ہاں ‘‘۔ آپؓ نے جواب دیا۔’’ہم آپ کی فوج کو فی کس دو اشرافیاں دیں گے۔ آپ لوگ یہاں سے چلے جائیں‘‘۔قاصد نے پیش کش کی۔اُن کا خیال تھا کہ مسلمان مفلس و قلاش ہیں اور آسائشوں کی تلاش کیلئے جنگ کا سہارا لیا ہے۔ لیکن آپؓ نے مسکرا کر انکار کردیا۔ ’’ہم اشرفیاں سمیٹنے کے لئے نہیں آئے، کچلی ہوئی انسانیت کو بام عروج پر پہنچانے کے لئے آئے ہیں‘‘۔ ایک مرتبہ امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ نے چار ہزار چار سو درہم بطور انعام آپ کو بھیجے۔ آپؓ نے فوراً بغیر کسی توقف کے ان کو فوج میں تقسیم کیا اور اپنے لیے کچھ نہ رکھا۔ جب حضرت عمر فاروقؓ کو معلوم ہوا تو فرمایا۔’’ الحمدﷲ ! اسلام میں ابھی ایسے لوگ موجود ہیں ‘‘۔جب 18 ہجری میں مفتوحہ ملکوں میں طاعون کا مرض پھیلا تو آپ بھی اس مرض میں مبتلا ہوگئے اور 58 برس کی عمر میں وفات پائی ۔آپ کا مزار دمشق میں ہے اور مزار کے احاطہ میں آپ ہی کے نام سے موسوم مسجد بھی ہے۔

Shoukat Ullah
About the Author: Shoukat Ullah Read More Articles by Shoukat Ullah: 226 Articles with 301637 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.