ملک محمد صدیق اعوان کا بنیادی تعلق لورہ سرکل سیر غربی
بنی پانڈ ایبٹ آباد ہزارہ خیبر پختونخوا سے ہے لیکن وہ خود عرصہ دراضہ سے
راولپنڈی میں رہائش پذیر ہے خود ایک اچھی زندگی گزار رہے ہیں ۔گزشتہ روز ان
سے اتفاقیہ ملاقات ہوئی جس میں تعارف کے بعد انہوں نے بتایا کہ وہ بنیادی
طور پر اس علاقے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں آج بھی بنیادی سہولیات موجود نہیں
، انہوں نے بتایا کہ وہ خیبر پختونخوا کے اس آخری اور پسماندہ علاقے کیلئے
پریشان ہے جہاں کی آبادی تقریباًاڑھائی لاکھ ہے لیکن آج اکیسویں دور میں
بھی وہاں ہسپتال اور ڈسپنسری نہیں ہے حتی کہ لیڈیز کیلئے کوئی ہیلتھ کئیر
سنٹر بھی موجود نہیں ،ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جب خواتین کوزچگی کا کوئی
مسئلہ ہوتو ان کو اسلام آباد کے ہسپتالوں میں لایاجاتا ہے جو کہ علاقے سے
تقریباً 140کلومیٹر دور ہے ۔پہاڑی اور دشوار گزار ہونے کی وجہ سے اسلام
آباد ہسپتال پہنچتے پہنچتے تقر یباً 4گھنٹے لگ ہی جاتے ہیں جس کی وجہ سے
اکثر خواتین راستے ہی میں بچوں کوجنم دیتی ہے یا ان کو دور ان زچگی موت
ہوجاتی ہے ۔ملک اعوان صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسلام آباد ہسپتالوں سے
دور ہونے کی وجہ سے سردیوں میں خاص کر برف باری کی وجہ سے مریضوں کو لانا
اور بھی مشکل ہوجاتا ہے جبکہ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجودہے کہ اسلام آباد
کے ہسپتالوں میں داخلہ کرانا بھی انتہائی مشکل ہوتاہے جو لوگ اسلام آباد کے
ہسپتالوں کے سسٹم سے واقف ان کواچھی طرح معلوم ہے کہ یہاں بھی کن مشکلات کا
سامنا ایک عام آدمی کو کرنا پڑتا ہے۔ ملک صدیق اعوان صاحب نے یہ بھی بتایا
کہ ہمارے علاقے کے ایم این اے ڈپٹی اسپیکر مرتضی جاوید عباسی نون لیگ اور
سردار ادریس ایم پی اے تحریک انصاف کے ہیں دونوں کی نااہلی اس بات سے عیاں
ہوتی ہے کہ اڑھائی لاکھ آبادی سے منتخب ہونے والے ان ارکن اسمبلی کو کوئی
شرم وحیا محسوس نہیں ہوتی کہ ان کے علاقے کے خواتین کو ان تکالیف کا سامنا
کرنا پڑتا ہے ۔
سچ تو یہ بھی ہے کہ صرف خواتین کو یہ مسائل درپیش نہیں ہوتی بلکہ دوسرے
بیمارحضرت زیادہ تر علاج ایمرجنسی میں نہ ہونے کی وجہ سے موت کے منہ میں
چلے جاتے ہیں ۔ ملک اعوان صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ میں نے ایم این اے اور
ڈپٹی اسپیکر مرتضی جاوید عباسی کو خود خطہ بھی لکھے ہے اور نون لیگ سے تعلق
کے بنیاد پر ان کو کئی دفعہ بتایا بھی ہے جبکہ گزشتہ دنوں وزیراعلی پرویز
خٹک کو بھی اس حوالے سے خط لکھا ہے کہ علاقہ لورہ سرکل سیرغربی وشرقی اور
ملحقہ علاقہ جات کیلئے کم از کم 20بیڈ پر مشتمل ہسپتال بنایا جائے جس کیلئے
میں اپنی ذاتی زمین موضع کلس نزد خانقاہ مزار پیر جمال شاہ صاحب مین مری
روڈ سیر غربی سرکل لورہ ضلع ایبٹ آباد کی تعمیر کیلئے بلامعاوضہ وقف کرنے
کیلئے بھی تیار ہوں۔ڈپٹی اسپیکر نے تو کوئی وعدہ پورا نہیں کیا ہے اب
دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعلیٰ پرویزخٹک کب ایکشن لیں گے جب کہ پی ٹی آئی ایم
پی اے سردار ادریس نے بھی کوئی کردار ادا نہیں کیا ہے ۔مزے کی بات یہ ہے کہ
یہ علاقہ بانڈری وال ہے کسی کوبھی اس علاقے کے مکینوں سے غرض نہیں ہے کوئی
اس کوپنجاب اور اسلام آباد کی ذمہ داری سمجھتے ہیں جبکہ کوئی اس کو
پختونخوا کا سمجھ کر جان چھوڑ لیتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان اختیارات کی
وجہ سے ہمارے بنیادی مسائل حل ہی نہیں ہوتے ۔ ان کو یہ بھی کہناتھا کہ اب
آنے والے انتخابات میں علاقے کے مکین یہ سوچ رہے ہیں کہ ان دونوں جماعتوں
کو ووٹ نہیں دی جائے جو وعدوں کے باوجود ہمارے بنیادی مسائل حل نہیں کرتے
ہیں۔
یہ بدقسمت علاقہ آیبٹ آباد سے بھی دور ہے جبکہ قریب جو
تقریباً140کلومیٹردور پڑتا ہے وہ اسلام آباد ہے ۔ پاکستان میں سیاست دان
نعرے اور وعدے تو بہت کرتے ہیں لیکن عملی طور پر عوام کے بنیادی مسائل کی
جانب بہت کم ہی توجہ دی جاتی ہے۔ میں نے جب ملک صاحب کی یہ داستان سنی تو
میں حیران رہ گیا کہ پختونخوا کے ایسے علاقے آج بھی موجود ہے جہاں بنیادی
سہولیات خصوصاً ہسپتال کی موجود نہیں ہے۔ نون لیگ ایک روایتی جماعت ہے ان
کی سیاست اور ترقی وہاں ہوتی ہے جہاں پر دنیا کو نظر آئے اور زیادہ تر سڑ
کوں پر توجہ دی جاتی ہے وہاں یہ لوگ کھربوں خرچ کرتے ہیں لیکن جہاں لاکھوں
اور کروڑں سے انسانی زندگی بچانا ممکن ہو وہاں یہ لوگ خرچ نہیں کرتے لیکن
افسوس پی ٹی آئی ایم پی اے پر ہوا جنہوں نے آج تک یقینا کوئی اواز بلند نہ
کی ہوگی ورانہ اس علاقے میں ہسپتال ضرور بن جاتا ۔ حالاں کہ پی ٹی آئی کی
حکومت نے بہت حد تک ضروری مسائل جن میں ہسپتال بھی شامل حل کیے ہیں۔
وزیراعلیٰ پرویزخٹک اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے گزارش ہے کہ
وہ اپنی پہلی فرصت میں اس مسئلہ پر ایکشن لیں اور اڑھائی لاکھ آبادی کے لئے
ہسپتال کی نہ صرف منظوری دیں بلکہ ملک صدیق اعوان صاحب کے ساتھ اس فون نمبر
03319894716 پر رابط کریں جہاں وہ بلامعاوضہ زمین دینے کیلئے بھی تیار ہے،
جلد از جلد کام شروع کریں تاکہ آئندہ قیمتی جانوں کا ضیاع کوروک جاسکیں ۔
|