سیرتِ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ

(عرس کے موقع پر تحریر ،آپکا عرس ہر اسلامی سال 25 صفر کو منایا جا تا ہے)

از: علامہ سید شاہ عبد الحق قادری
امیر جماعت اہلسنّت پاکستان کراچی
خاندانی حالات:
اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت مولانا حافظ شاہ محمد احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کا سلسلہ نسب کچھ اس طرح ہے، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں بن مولانا نقی علی خاں بن مولانا رضا علی خاں بن حافظ کاظم علی خاں بن شاہ محمد اعظم خاں بن شاہ محمد سعادت یار خاں بن شاہ محمد سعید اﷲ خاں علیہم الرحمۃ آپ کے جد اعلیٰ حضرت شاہ محمد سعید اﷲ خاں علیہ الرحمہ قندھار افغانستان کے قبیلہ بڑھیچ کے پٹھان تھے مغلیہ دور حکومت میں لاہور تشریف لائے اور بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے، لاہور کا شیش محل ان کی جاگیر تھا، لاہور سے آپ دہلی تشریف لائے آپ کی بہادری پر آپ کو شجاعت جنگ کا خطاب بھی ملا،ان کے صاحبزادہ حضرت شاہ محمد سعید یار خاں علیہ الرحمہ کو مغلیہ سلطنت نے ایک جنگی مہم سر کرنے روہیل کھنڈ بھیجا جس میں آپ نے فتح پائی اور پھر یہیں آپ کا وصال ہوا ان کے صاحبزادے حضرت مولانا محمد اعظم خان علیہ الرحمۃ پہلے تو حکومتی عہدہ پر فائز رہے لیکن پھر امور سلطنت سے سبکدوشی حاصل کرکے عبادت و ریاضت میں مشغول رہنے لگے اور آپ نے شہر بریلی کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنالیا۔ اس شہرِ بریلی میں مولانا شاہ محمد نقی علی خاں علیہ الرحمہ کے یہاں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کی ولادت ہوئی اور آج تک آپ کے خاندان کے افراد یہیں آباد ہیں۔
ولادت:
اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت مولانا حافظ شاہ محمد احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کی ولادت ۱۰ شوال المکرم ۱۲۷۲ھ بمطابق ۱۴؍ جون ۱۸۵۶ء بروز ہفتہ بوقت ظہر، محلہ جسولی بریلی شریف انڈیا میں ہوئی۔ آپ کا نام محمد رکھا گیا جبکہ آپ کے جد امجد حضرت علامہ رضا علی خان علیہ الرحمہ نے ’’احمد رضا‘‘ تجویز فرمایا اور تاریخی نام المختار(۱۲۷۲ھ) ہوا، جبکہ خود اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے،غلامی رسول کے اظہار کیلئے اپنے نام سے پہلے عبد المصطفیٰ کا اضافہ فرمایا اور اپنا سن ولادت اس آیت مبارکہ سے نکالا:
اولئک کتب فی قلوبھم الایمان وایدیھم بروح منہ (سورہ مجادلہ، آیت۲۲، پارہ ۲۸)
’’یعنی یہ ہیں وہ لوگ جن کے دلوں میں اﷲ نے ایمان نقش فرمادیا ہے اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مدد فرمائی ہے‘‘۔
خود ہی ارشاد فرماتے ہیں، بحمداﷲ تعالیٰ بچپن سے مجھے نفرت ہے اعداء اﷲ سے، اور میرے بچوں کو بھی بفضل اﷲ تعالیٰ عداوت ِ اعداء اﷲ گھٹی میں پلا دی گئی ہے اور بفضلہ تعالیٰ یہ وعدہ بھی پوا ہوا اولئک کتب فی قلوبھم الایمان Oبحمدا ﷲ تعالیٰ اگر میرے قلب کے دو ٹکڑے کئے جائیں تو خدا کی قسم ایک پر لکھا ہوگا لا الہ الا اﷲ (جل جلالہ) دوسرے پر لکھا ہوگا محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اور اس پر مستزادیہ تمنا کہ !
کروں تیرے نام پہ جاں فدا

1نہ بس ایک جاں دوجہاں فدا
5دوجہاں سے بھی نہیں جی بھرا

3کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں
اور پھر اپنے اجداد کی فضیلت اور برکات کا ذکر اس طرح فرماتے ہیں:
’’یہ سب برکات ہیں حضرت جد امجد علیہ الرحمہ کی، قرآن عظیم میں خضر علیہ السلام کے واقعہ میں ہے کہ دو یتیم ایک مکان میں رہتے تھے اس کی دیوار گرنے والی تھی اور اس کے نیچے ان کا خزانہ تھا، خضر علیہ السلام نے اس دیوار کو سیدھا کردیا۔ اس واقعہ کو فرمایا جاتا وکان ابوھما صالحا (سورہ کہف آیت ۸۲، پارہ۱۶)یعنی ان کا باپ نیک آدمی تھا، اس کی برکت سے یہ رحمت کی گئی۔ حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں وہ باپ ان کی چودہویں پشت میں تھا صالح باپ کی یہ برکات ہوتی ہیں تو یہاں تو ابھی تیسری ہی پشت ہے دیکھئے کب تک برکات اس سلسلہ میں ہیں‘‘۔ (الملفوظ حصہ سوم)
تعلیم:
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے ابتدائی تعلیم کچھ حضرت مولانا مرزا غلام قادر بیگ علیہ الرحمہ سے اور اکثر کتب اپنے والد ماجد حضرت مولانا محمد نقی علی خاں علیہ الرحمہ سے پڑھیں، نیز چند ایک کتب کادرس حضرت مولانا سید ابوالحسین احمد نوری اور حضرت مولانا عبدالعلی رامپوری علیہ الرحمہ سے بھی لیا۔
آپ نے اپنے والد ماجد اور اساتذہ سے مندرجہ ذیل اکیس علوم کی تعلیم حاصل کی۔
۱……علم قرآن، ۲……علم تفسیر، ۳……علم حدیث، ۴……اصول حدیث، ۵……کتب فقہ حنفی، ۶……کتب فقہ شافعی و مالکی و حنبلی، ۷……اصولِ فقہ، ۸……جدلِ مہذب، ۹……علم العقائد والکلام(جومذاہب باطلہ کی تردید کے لئے ایجاد ہوا)، ۱۰……علم نحو، ۱۱……علم صرف، ۱۲……علم معانی، ۱۳……علم بیان، ۱۴……علم بدیع، ۱۵……علم منطق، ۱۶……علم مناظرہ، ۱۷……علم فلسفہ مدلسہ، ۱۸……ابتدائی علم تکسیر، ۱۹……ابتدائی علم ہیئت، ۲۰……علم حساب تا جمع، تفریق، ضرب، تقسیم،۲۱……ابتدائی علم ہندسہ۔(سوانح اعلیٰ حضرت صفحہ ۹۸)
جبکہ مندرجہ ذیل علوم آپ نے بغیر کسی استاد محض اپنی خداداد ذہانت اور صلاحیت سے حاصل کیئے:
۲۲……قرأت، ۲۳……تجوید، ۲۴……تصوف، ۲۵……سلوک، ۲۶……علم اخلاق، ۲۷……اسماء الرجال، ۲۸……سیر، ۲۹……تواریخ، ۳۰……لغت، ۳۱……ادب مع جملہ فنون، ۳۲……ارثماطیقی، ۳۳……جبرومقابلہ، ۳۴……حساب ستینی، ۳۵……لوغارثمات(لوگارثم)، ۳۶……علم التوقیت، ۳۷……مناظرہ، ۳۸……علم الاکر، ۳۹……زیجات، ۴۰……مثلث کُروی، ۴۱……مثلث مسطح، ۴۲……ہیئت جدیدہ(انگریزی فلسفہ)، ۴۳……مربعات، ۴۴……منتہی علم جفر، ۴۵……علم زائرچہ، ۴۶……علمِ فرائض، ۴۷……نظم عربی، ۴۸…… نظم فارسی، ۴۹…… نظم ہندی، ۵۰……انشاء نثر عربی، ۵۱……انشاء نثر فارسی، ۵۲……انشاء نثر ہندی، ۵۳……خط نسخ، ۵۴……خط نستعلیق، ۵۵……منتہی علم حساب، ۵۶……منتہی علم ہیئت، ۵۷……منتہی علم ہندسہ، ۵۸……منتہی علم تکسیر، ۵۹……علم رسم خط قرآن مجید۔(سوانح اعلیٰ حضرت صفحہ ۹۹)
مذکورہ بالا 59علوم و فنون میں سے پچاس فنون پر آپ کی تصانیف موجود ہیں ذہانت کا یہ عالم تھا کہ دورانِ تعلیم صرف آٹھ برس کی عمر میں علم نحو کی کتاب ہدایت النحو کی شرح عربی زبان میں لکھ دی۔ اور محض تیرہ سال دس ماہ اور پانچ دن کی عمر شریف میں مروجہ علوم و فنون کی تکمیل کرکے ۱۴؍ شعبان ۱۲۸۶ھ بمطابق ۱۹؍ نومبر ۱۸۶۹ء کو سند فراغت حاصل کی، اسی روز مسئلہ رضاعت پر ایک فتویٰ تحریر فرماکر والد ماجد کی خدمت میں پیش کیا، والد ماجد نے لائق اور ذہین بیٹے کی تحریر اور فتویٰ ملاحظہ فرماکر تحسین فرمائی اوراس دن سے فتویٰ نویسی کی خدمت آپ کے سپرد کردی۔
دینی علوم کے علاوہ دنیاوی علوم میں بھی آپ کو وہ مہارت حاصل تھی کہ بڑے بڑے ماہر فن آپ کے سامنے طفل مکتب نظر آتے تھے چنانچہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر جنہوں نے ہندوستان کے علاوہ یورپ کے ممالک میں تعلیم پائی تھی اور ریاضی میں کمال حاصل کیا تھا اور ہندوستان میں کافی شہرت رکھتے تھے اتفاق سے ان کو ریاضی کے کسی مسئلہ میں اشتباہ ہوا ۔ ہر چند کوشش کی مگر وہ مسئلہ حل نہ ہوا، چونکہ صاحبِ حیثیت تھے اور علم کے شائق، اس لئے قصد کیا کہ جرمن جاکر اس کو حل کریں۔ حسن اتفاق سے انہوں نے حضرت مولانا سید سلیمان اشرف صاحب بہاری پروفیسر دینیات مسلم یونیورسٹی سے اس کا ذکر کیا۔ مولانا نے مشورہ دیا کہ آپ بریلی جاکر اعلیٰ حضرت امام احمد رضا سے دریافت کیجئے انشاء اﷲ تعالیٰ وہ ضرور حل کردیں گے، وائس چانسلر صاحب نے کہا کہ مولانا یہ آپ کیا فرمارہے ہیں میں کہاں کہاں تعلیم پاکر نہیں آیا ہوں اور حل نہ کرسکااور آپ ان صاحب کا نام لیتے ہیں جنہوں نے غیر ممالک میں تو کجا اپنے شہر کے کالج میں بھی تعلیم حاصل نہ کی وہ بھلا کیا حل کرسکتے ہیں۔ دو چار روز کے بعد مولانا سید سلیمان اشرف صاحب نے ان کو پریشان دیکھ کر دوبارہ یہی مشورہ دیا لیکن وائس چانسلر صاحب نے کہا وہ کیا حل کرسکتے ہیں اور یورپ جانے کا سامان شروع کردیا۔ مولانا موصوف نے جب تیسری بار بریلی جانے کو فرمایا تو وہ غصہ بھرے لہجے میں بولے کہ مولانا عقل بھی کوئی چیز ہے۔ آپ مجھے کیسی رائے دے رہے ہیں۔ اس پر مولانا نے فرمایا آخر اس میں حرج ہی کیا ہے۔ اتنے بڑے سفر کے مقابلے میں بریلی جانا تو کوئی چیز نہیں۔ علی گڑھ سے سیدھی گاڑی جاتی ہے چند گھنٹے کا سفر ہے آپ وہاں ہو تو آئیے پھر تو ان کی سمجھ میں بھی بات آگئی۔ چنانچہ مولانا سید سلیمان اشرف صاحب ان کو لے کر مارہرہ شریف پہنچے اور وہاں سے اعلیٰ حضرت کے پیر زادہ والادرجت حضرت سید مہدی حسن صاحب سجادہ نشین کو لیکر بریلی شریف اعلیٰ حضرت کے دولتکدہ پر پہنچے اعلیٰحضرت نے مزاج پرسی فرمائی اور آنے کی غرض دریافت کی، وائس چانسلر صاحب نے بتایا کہ میں ریاضی کا ایک مسئلہ پوچھنے آیا ہوں۔ اعلیٰ حضرت نے فرمایا پوچھئے، وائس چانسلر صاحب نے کہاکہ وہ ایسی بات نہیں ہے جسے میں اتنی جلدی عرض کردوں اعلیٰحضرت نے فرمایا کہ کچھ تو کہیے،وائس چانسلر صاحب نے مسئلہ بتایا تواعلیٰ حضرت نے سنتے ہی فرمایا کہ اس کا جواب یہ ہے۔ یہ سن کر ان کو حیرت ہوگئی اور گویا آنکھ سے پردہ اٹھ گیا۔ بے اختیار بول اُٹھے کہ میں سنا کرتا تھا کہ عِلْمِ لَدُنِّی بھی کوئی چیز ہے۔ آج آنکھ سے دیکھ لیا میں تو اس مسئلہ کے حل کے لئے جرمن جانا چاہتا تھا کہ ہمارے پروفیسر صاحب جناب مولانا سید سلیمان اشرف صاحب نے میری رہبری فرمائی مجھے جواب سن کر تو ایسا معلوم ہورہا ہے گویا جناب اسی مسئلہ کو کتاب میں دیکھ رہے تھے۔ سنتے ہی فی البدیہہ تشفی بخش نہایت اطمینان کا جواب دیا۔ پھر وائس چانسلر صاحب بہت شاداں و فرحاں علیگڑھ واپس ہوئے۔(سوانح اعلیٰ حضرت صفحہ ۱۱۱تا ۱۱۳)فن توقیت میں جو آپ ملکہ حاصل تھا اس کا ذکر حضرت علامہ بدر الدین احمد اسطرح کرتے ہیں فن توقیت میں اعلیٰ حضرت کے کمال کایہ عالم تھا کہ سورج آج کب نکلے گا اور کس وقت ڈوبے گا اسکو بلاتکلف معلوم کرلیتے، ستاروں کی معرفت اور ان کی چال کی شناخت پر اس قدر عبور تھا کہ رات میں تارا اور دن میں سورج دیکھ کر گھڑی ملالیا کرتے اور وقت بالکل صحیح ہوتا ایک منٹ کا بھی فرق نہ پڑتا۔
اولاد:
۱۲۹۱ھ میں آپ کی شادی ہوئی، آپ کے یہاں دو صاحبزادے،حجۃ الاسلام حضرت علامہ مولانا شاہ محمد حامد رضا خاں اور مفتی اعظم ہند حضرت علامہ مولانا شاہ محمد مصطفی رضا خاں علیہماالرحمہ اور پانچ صاحبزادیاں تولد ہوئیں۔
شرف بیعت:
۱۲۹۵ھ میں اعلیٰحضرت فاضل بریلوی، اپنے والد ماجد حضرت علامہ نقی علی خاں علیہ الرحمہ کے ہمراہ مارہرہ شریف گئے اور وہاں حضرت علامہ مولانا سید شاہ آل رسول احمدی علیہ الرحمہ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے۔ آپ کے پیرومرشد نے بیعت فرماتے ہی آپ کو تمام سلاسل کی اجازت وخلافت عطا فرمائی۔
تدریس:
تحصیل علم کے فوراً بعد آپ نے تدریس اور افتاء کی طرف توجہ فرمائی۔ چونکہ بریلی شریف میں اسوقت کوئی مدرسہ نہیں تھا چنانچہ طلباء اعلیحضرت علیہ الرحمہ کی طرف رجوع کرتے، انہیں دنوں کاایک واقعہ ملک العلماء حضرت علامہ محمدظفر الدین بہاری علیہ الرحمہ اپنی تصنیف ’’حیات اعلیٰ حضرت ‘‘ میں اسطرح بیان فرماتے ہیں!!!
’’اسی زمانے کا ایک واقعہ جناب مولوی محمد شاہ خاں عرف نتھن خاں صاحب بیان فرماتے تھے کہ ایک دن تین طالب علم نئے آئے اور اعلیٰحضرت سے پڑھنے کا ارادہ ظاہر کیا، میں نے دریافت کیا کہ کہاں سے آپ لوگ آئے ہیں، اس سے پہلے کہاں پڑھتے تھے وہ لوگ بولے دیوبند میں پڑھتے تھے وہاں سے گنگوہ گئے، اس کے بعد یہاں آئے ہیں میں نے کہا کہ یوں تو طلباء کو یہ مرض ہوتا ہے کہ وہاں پڑھائی بہتر ہے اسی لیے ایک جگہ جم کر بہت کم پڑھتے ہیں بلکہ دوچار جگہ جاکر ضرور دیکھا کرتے ہیں، مگر یہ عموماً ایسی جگہ ہوتا ہے جہاں کی تعریف انسان سنتا ہے لیکن میرے خیال میں یہ بات نہیں آتی کہ آپ لوگوں نے دیوبند یا گنگوہ میں بریلی کی تعریف سنی ہو، اور اس وجہ سے یہاں کے مشتاق ہوکر تشریف لائے ہوں۔ بولے یہ آپ ٹھیک کہتے ہیں،اختلاف مذہب واختلاف خیال کی وجہ سے اکثر تو بریلی کی برائی ہی ہوا کرتی تھی،مگر ٹیپ کا بندیہ ضرور ہوتا کہ قلم کا بادشاہ ہے جس مسئلہ پر قلم اٹھادیا پھر کسی کی مجال نہیں کہ ان کے خلاف کچھ لکھ سکے، یہی دیوبند میں سنا اور یہی گنگوہ میں بھی۔ تو ہم لوگوں کے دلوں میں شوق وذوق ہوا کہ وہیں چل کر علم حاصل کرنا چاہیے جن کے مخالفین، فضل وکمال کی گواہی دیتے ہیں ‘‘۔
سفر حج وزیارت:
۱۲۹۵ھ میں اعلیٰ حضرت اپنے والد ماجد کے ہمراہ حج بیت اﷲ کیلئے تشریف لے گئے،جہاں آپ نے اکابر علماء عرب سے سند حدیث حاصل فرمائی، ایک دن آپ مقام ابراہیم پر نماز ادا فرمارہے تھے کہ نماز کے بعد امام شافعیہ حضرت حسین بن صالح جمال اللیل نے بغیر کسی تعارف کے آپ کا ہاتھ تھاما اور اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئے اور دیر تک آپ کی پیشانی پکڑ کر فرمایا!!!
’’اِنِّیْ لَاَجِدُ نُوْرَ اللّٰہِ فِیْ ھٰذَا الْجَبِیْنِ۔ ’’بیشک میں اﷲ کا نور اس پیشانی میں پاتا ہوں‘‘۔
اور صحاح ستہ اور سلسلہ قادریہ کی اجازت اپنے دست مبارک سے لکھ کر عنایت فرمائی، اس سند کی بڑی خوبی یہ ہے کہ اسمیں امام بخاری تک فقط گیارہ واسطے ہیں۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت،صفحہ۱۳۳)
دوسرا حج آپ نے ۱۳۲۳ھ میں اپنی اہلیہ،برادر اصغر حضرت مولانا محمد رضاخاں اور فرزند اکبر حجۃ الاسلام مولانا محمد حامد رضا خاں علیہم الرحمہ کے ساتھ فرمایا،اس بار جب مدینہ منورہ حاضر ہوئے تو شوق دیدار میں دیر تک مواجہہ اقدس کے سامنے درود شریف پڑھتے رہے، اس یقین کے ساتھ کہ سرکار ابدقرار عزت افزائی فرمائیں گے۔ لیکن پہلی شب ایسانہ ہوا تو کچھ کبیرہ خاطر ہو کر ایک غزل لکھی جس کا مطلع یہ ہے۔
وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں

3تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
h اس کے مقطع میں اسی تڑپ کی طرف اشارہ کیا،فرماتے ہیں۔
کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضاؔ

3تجھ سے کتے ہزار پھرتے ہیں
یہ غزل مواجہہ اقدس میں عرض کرکے انتظار میں مؤدب بیٹھے تھے کہ قسمت جاگ اٹھی اور چشم سر سے بیداری میں سرکار ابدقرار ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوئے۔
اتباع شریعت:
اتباع شریعت کا اس قدر التزام فرماتے کہ فرائض اور واجبات تو کجا سنن اور مستحبات پر بھی ہر ممکن عمل فرماتے چنانچہ سید ایوب علی صاحب کا بیان ہے کہ ایک روز فجر کی نماز پڑھانے کیلئے آنے میں اعلیٰ حضرت کو کچھ دیر ہوگئی،نمازیوں کی نگاہیں باربار کا شانہ اقدس کی اٹھ رہی تھیں،اسی اثناء میں اعلیٰحضرت جلد جلد تشریف لائے، اس وقت قناعت علی صاحب نے مجھ پراپنا یہ خیال ظاہر کیا کہ اس تنگ وقت میں دیکھنا یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت مسجد میں پہلے دایاں قدم رکھتے ہیں یا بایاں،مگر قربان اس ذات کے کہ دروازۂ مسجد کے زینے پر جس وقت قدم مبارک پہنچا ہے تو سیدھا، توسیعی فرشِ مسجد پر قدم پہنچتا ہے تو دایاں اور اسی پربس نہیں ہر صف پر تقدیم داہنے ہی قدم سے فرمائی یہاں تک کہ محراب میں مصلے پر قدم پاک سیدھا ہی پہنچتا ہے اور اسی پر کہاں منحصر ہے بینی پاک کرنے اور استنجاء فرمانے کے سوا حضور کے ہر فعل کی ابتداء سیدھے ہی جانب سے ہوتی تھی۔
نیز ایک روز ارشاد فرمایا کہ بعض ناواقف لوگ میرے نام کے ساتھ حافظ لکھ دیا کرتے ہیں حالانکہ میں حافظ نہیں ہوں،ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ اگر کوئی حافظ صاحب کلام پاک کا ایک رکوع ایک بار پڑھ کرسنادیں وہ مجھے یاد ہوجائیگا، وہ دوبارہ مجھ سے سن لیں،یہ کہہ کر اسی دن سے دور شروع فرمادیا اور تیس دن میں تیس پارے سنادیئے۔یوں ایک ماہ میں پورا قرآن مجید حفظ کرلیا۔
تصانیف:
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے تقریباً 50علوم وفنون پر ایک ہزار سے زائد کتب تصنیف فرمائیں۔ ان علوم میں سے بعض تو ایسے ہیں کہ جن کے آپ موجد تھے اور بعض ایسے کہ آپ کے وصال کے بعد اب ان علوم کی ادنی معلومات رکھنے والا بھی کوئی نظر نہیں آتا۔ نیز مختلف فنون کی ڈیڑھ سو کے قریب مشہور کتابوں پر آپ نے حواشی تحریر فرمائے جو کسی طرح بھی مستقل تصانیف سے کم نہیں۔
آپ کا ترجمہ قرآن کنزالایمان،آپ کی قرآن فہمی کا بین ثبوت ہے، جبکہ میدان فقاہت اور تحقیق میں آپ کا عظیم علمی شاہکار آپ کا مجموعہ فتاویٰ،العطایا النبویہ فی الفتاویٰ الرضویہ،جو پرانی طباعت میں جہازی سائز کی ۱۲ جلدوں پر مشتمل اور کئی ہزار صفحات پر پھیلاہوا ہے جبکہ جدید طباعت میں 26جلدوں پر مشتمل ہے۔ آپ کے فتاویٰ کو دیکھ کر مکہ مکرمہ کے جلیل القدر عالم دین حضرت مولانا سید اسماعیل بن سید خلیل علیہماالرحمہ کو کہنا پڑا کہ!’’اگر امام اعظم ابوحنیفہ اس ہستی کو دیکھتے تو اپنے اصحاب میں شامل فرمالیتے‘‘۔
اور آپ تیسرا شاہکار آپ کا مجموعہ نعت’’حدائق بخشش‘‘ہے جو فن شاعری میں اپنی مثال آپ ہے۔
اعلیٰ حضرت نے بر صغیر کے لوگوں کی نہ صرف رہنمائی فرمائی بلکہ اس دور میں اٹھنے والے فتنوں کا سد باب کیا جبکہ اسوقت مسلمانان پاک وہند کے مذہبی،سیاسی،معاشی اور تمدنی نظریات وروایات پر تابرتوڑ حملے کئے جارہے تھے ایک طرف برسہا برس سے قائم مسلمانوں کے عقائد اور معمولات کو کفر اور شرک ٹھہرایا جانے لگا،حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کے خاتم النبیین ہونے کے نئے معنی وضع کئے جارہے تھے،کہیں قرآن پر کہیں حدیث پر کہیں ائمہ دین پر تو کہیں اولیاء کاملین پر اعتراضات کئے جارہے تھے تو دوسری طرف مسلمانوں کو ہندؤوں کے قریب لاکر ہندوؤں کی خوشنودی کیلئے گائے کی قربانی ترک کرکے شعار اسلامی کو مٹانے کی کوشش کی جارہی تھی،تحریک خلافت اور تحریک ترک موالات کے پردہ میں مسلمانوں کو بے دست وپاکیا جارہا تھا،تحریک ہجرت چلاکر مسلمانوں کو ان کی زمینوں اور جائیدادوں سے محروم کیاجارہا تھا،انگریزی اور ہندوانہ تہذیب کو مسلط کیاجارہا تھا اور جب گاندھی نے متحدہ قومیت کا نعرہ لگایا تو بڑے بڑے نامور لوگ اس سازش کو نہ سمجھ سکے اور گاندھی کی آندھی میں بہہ گئے۔اس وقت اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت مولانا شاہ احمد رضاخاں محدث بریلوی علیہ الرحمہ ہی تھے جنہوں نے دوقومی نظریہ کا علم بلند کیا۔
وصال:
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے اپنے وصال سے تقریباً پانچ ماہ قبل کوہ بھوالی پر۳ رمضان المبارک۱۳۳۹ھ کو اپنے وصال کی تاریخ اس آیت کریمہ سے نکالی!’’وَیُطَافُ عَلَیْہِمْ بِاٰنِیَۃٍ مِّنْ فِضَّۃٍ وَّاَکْوَابٍ ۔یعنی خدام چاندی کے برتن اور آبخورے لیکر(جنت میں) ان کے گرد گھوم رہے ہیں‘‘اور پھر اپنا مشن پورا کرکے۲۵صفر المظفر(۱۳۴۰ھ/۱۹۲۱ء) بروز جمعۃ المبارک کو۲ بجکر ۳۸منٹ پر،عین اذان جمعہ کے وقت حی علی الفلاح کا نغمہ جانفزا سن کر داعی اجل کو لبیک کہا۔
٭……٭……٭

Salman Ahmed Shaikh
About the Author: Salman Ahmed Shaikh Read More Articles by Salman Ahmed Shaikh: 14 Articles with 12523 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.