مجدد الف ثانی شیخ احمد فاروقی سرہندی علیہ الرحمہ کی حیات کے چند تابندہ نقوش

آپ کا نام ’’احمد‘‘ لقب ’’بدرالدین‘‘ کنیت ’’ابوالبرکات‘‘ منصب خزینۃ الرحمۃ قیوم زبان’’ مجدد الف ثانی‘‘ اور عرف’’ امام ربانی‘‘ ہے، آپ حنفی تھے۔ آپ کا طریقہ مجددیہ جامع کمالات جمیع طریق قادریہ ، سہروردیہ ، کبرویہ ، قلندریہ ، مداریہ، نقشبندیہ، چشتیہ ، نظامیہ اور صابریہ ہے۔ آپ کا نسب عالی 72؍واسطوں سے حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ سے ملتا ہے۔ آپ کے جملہ بزرگ چرخ ولایت وعرفان کے آفتاب برج ہدایت وایمان کے ماہتاب تھے۔ شیخ احمدفاروقی سرہندی مجددالف ثانی علیہ الرحمہ کی ولادت 4؍شوال 971؍ہجری بمطابق 26؍مئی 1564؍کو پنجاب کے ایک مقام سرہند میں ہوئی۔ تعلیم کی ابتدا حفظ قرآن سے ہوئی ،پھر منطق ، فلسفہ اور علم کلام میں مہارت حاصل کی۔ شارح بخاری شیخ یعقوب حرفی سے حدیث کی اور قاضی بہلول بدخشانی سے تفسیرکی اہم کتابیں پڑھیں اور سترہ سال کی عمر میں جملہ علوم کی تکمیل سے فارغ ہوگئے۔ فراغت کے بعد درس وتدریس میں مشغول ہوئے۔ اسی دوران رسالہ تہلیلیہ اوررسالہ درردشیعہ تحریرکیا۔ شیخ احمدفاروقی سرہندی کو الف ثانی کہنے کی دو رائے ہیں: ایک گروہ کہتا ہے کہ وہ دوسرے الفیہ(ہجری سنہ کے اعتبار سے دوسرے ہزارے)کے شروع میں پیدا ہوئے تھے اس لیے وہ الف ثانی(دوسرے ہزارے)کے مجدد کہلائے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اکبر نے یہ کہا کہ دین اسلام کو ہزارسال پورے ہوگئے جو کسی بھی مذہب کی طبعی عمر ہے اس لیے اب دوسرے ہزارے میں نئے مذہب کی ضرورت ہے۔ یہ اکبر کا الف ثانی کا نظریہ تھاجس کی تردید شیخ احمد فاروقی نے کی۔اکبر کے دور بادشاہی میں جس قدر کفروالحاد کوفروغ اور شرع اسلام کو ضعف وانحطاط ہو گیاتھا وہ محتاج بیان نہیں۔ دربار کا ادب سجدہ تھا اور بادشاہی کا مہر سجع’’ جل جلالہ مااکبر شانہ‘‘ تھا۔ وزیرابوالفضل نے ایک کتاب بادشاہ کولاکردی اور کہا کہ آسمان سے آپ کے واسطے فرشتہ لایا ہے تاکہ آپ اس پر عمل کریں چنانچہ اس کتاب میں ایک آیت یہ بھی تھی ،ترجمہ: ’’ائے بشر! توگائے کو ذبح مت کر اور جو تو کرے گاتوٹھکانہ تیرا جہنم میں ہوگا۔ ‘‘
یہ قدرت ہے کہ بیا بوالفضل مردک
فرشتے نے نہ پائی راہ شہ تک
کتاب اتری تو ایسی لغو مہمل
کہ ہر یک فقرہ بے معنی و معضل

صرف اتناہی نہیں بلکہ دین الٰہی یعنی دین اکبری کاسلسلہ شروع ہوا۔کلمہ طیبہ میں محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی جگہ’’ اکبر خلیفۃ اﷲ‘‘ پڑھاجانے لگا،خنزیر اور کتوں کومحترم بنایاگیا،شراب اور جواحلال ٹھہرایا گیا،گائے کے ذبیحہ پرپابندی لگادی گئی،پردہ پرپابندی اور بے پردگی عام کردی گئی،بادشاہ کو سجدۂ تعظیمی لازم قرار دیاگیا،مساجد ڈھادی گئی،مدراس عربیہ پرپابندی لگادی گئی بعض منہدم کردیئے گئے،علما کوجبراً شراب پلائی گئی،ڈاڑھی منڈوانا عام کیاگیا بلکہ ڈاڑھیاں منڈوائی گئی اور تضحیک کی گئی،سیاسی مقاصد کے تحت مذاہب باطلہ سے اتحاد کے ذریعے ایک نئی قوم کی تیاری کا سامان کیاگیااور مخالفین کوقتل کیاگیایامروادیاگیا۔شیخ مجدد الف ثانی نے ان تمام نظریات کی تردید کرکے اسلام کی حقانیت کو ازسرنو ثابت کیا۔ اور اس بات کو مدلل کیا کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی رسالت ایک ہزار یہ کے لیے نہیں بلکہ ہرزمانے کے لیے ہے۔ اس لیے آپ مجدد الف ثانی کہلائے۔

آپ کے فضیلت کے باب میں کتاب ’’افکار حضرت مجدد الف ثانی اور عصر حاضر‘‘میں صوفی غلام سرور نقشبندی مصطفی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہے کہ:گیارہوی صدی ہجری کے شروع میں اﷲ تعالیٰ دو جابر بادشاہوں(اکبرو جہانگیر) کے درمیان ایک ایسا شخص بھیجے گاجومیراہم نام ہوگا،نور عظیم الشان ہوگا،ہزاروں انسان اس کی شفاعت سے جنت میں داخل ہوں گے۔(روضۃ القیومیہ)حضرت امام ربانی نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنّت پر عمل کرتے ہوئے بادشاہوں،امراء ، وزراء، انتظامیہ،گورنر،عدلیہ اورعلماء ومشائخ کوخطوط لکھے اور مکتوبات کے ذریعے ایسا انقلاب پیداکردیااور ایسی جماعت پیداکردی جنہوں نے دین اسلام کی عظمتوں کوبلند کرنے کیلئے بے پناہ کوششیں اور کاوشیں کیں جس کے ذریعے دین الٰہی نامی نئے دین کاخاتمہ ممکن ہوا۔حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اﷲ علیہ کایہ عظیم کارنامہ ہے کہ اس وقت کے جاہل صوفیہ جویہ کہتے تھے کہ دل کی نماز پڑھنی چاہیے، دل کا روزہ رکھنا چاہیے اورشریعت پرگامزن ہوناضروری نہیں،شریعت اور چیزہے اور طریقت اور چیزاورمعرفت الگ چیزہے۔حضرت امام ربانی علیہ الرحمہ نے فرمایاکہ علم ،عمل اور اخلاص یہ شریعت کے تین جزوہیں اور طریقت ،شریعت کے تیسرے جزویعنی اخلاص پیداکرنے کے لیے یہ راستہ اختیار کیاجاتا ہے اس لیے’’طریقت،حقیقت ومعرفت خادمان شریعت اند‘‘یعنی طریقت،حقیقت ومعرفت نبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی شریعت کے تابع ہیں اور جوشریعت محمدی صلی اﷲ علیہ وسلم کی تابعداری نہیں کرتاوہ نہ صوفی بن سکتاہے، نہ ہی ولی اور نہ حقیقت ومعرفت کے مقام کوحاصل کرسکتاہے۔ آپ نے تصوف پر خصوصی توجہ دی ، شریعت اور تصوف کے درمیان کیامشترک ہے؟ اور کیا چیزیں اضافی ہیں؟ان کو واضح کرکے ان کی حیثیت متعین کی اور وحدۃ الوجود کے فلسفہ کے مقابلے میں وحدۃ الشہود کا فلسفہ پیش کیا جو ان کی نظر میں راہِ سلوک میں سالک کے لیے محفوظ ترین راستہ تھا۔ مجددالف ثانی نے طریقت پر شریعت کی بالاتری کو تسلیم کیا اور اسی کو ثابت کرنے کی کوشش کی اور واضح کیا کہ سالک کے تجربات ومشاہدات کی بنیاد پر شریعت کاکوئی بھی حکم تبدیل نہیں کیا جائے گا اور احکام خداوندی میں کسی بھی قسم کی تبدیلی قبول نہیں کی جائے گی۔

شیخ احمدفاروقی سرہندی علیہ الرحمہ نے اپنی زندگی میں متعددکتابیں لکھیں۔ آپ کی تصنیفات میں اثبات النبوۃ(عربی) ، رد روافض (فارسی)، رسالہ تہلیلیہ (عربی)، شرح رباعیات حضرت خواجہ باقی باﷲ،رسالہ حالات خواجگاں نقشبند، معارف لدنیہ، مبداومعاد، مکاشفات عینیہ،آداب المریدین مشہور ہیں لیکن جو شہرت’’مکتوبات امام ربانی‘‘ کوحاصل ہوئی اور جو فیض ان مکتوبات سے اہل علم وخواص نے اٹھایا اس کی کچھ بات ہی اور ہے۔ شیخ احمدفاروقی سرہندی رحمۃ اﷲ علیہ کے 7؍بیٹے تھے۔ جن میں سے تین شیرخوارگی ہی میں فوت ہوگئے اور چوتھے صاحبزادے خواجہ محمدصادق 25؍سال کی عمرمیں فوت ہوئے۔ تین بیٹے ان کے بعد حیات رہے۔ خواجہ محمدسعید اور خواجہ محمدیحییٰ نے بھی اپنے والد کے سلسلے کی اشاعت کی، لیکن سلسلہ مجددیہ نقشبندیہ کو اصل شہرت حضرت خواجہ محمدمعصوم سے ملی، اس سلسلے میں بڑے بڑے علمااور صلحا پیدا ہوئے۔ خانقاہ مجددیہ کے جانشینوں میں مرزا مظہرجانجاناں اور شاہ غلام علی جیسے لوگ پیدا ہوئے ۔آپ کے دیگر خلفا میں سید آدم بنوری، مولانا احمدبرکی، مولانا بدرالدین سرہندی اور محمدصادق وغیرہ شامل ہیں۔ 28؍صفر 1034؍ھ بوقت اشراق داعی اجل کو آپ نے لبیک فرمایا۔ آپ کی عمر رحلت کے وقت 63؍سال تھی۔ کتاب شرح صدر میں ہے کہ آپ کو غسل دیتے وقت یہ واقعہ پیش آیا۔ غسل دیتے وقت آپ کے دونوں ہاتھ مثل نماز کے قیام کے تھے، کئی مرتبہ غسل دیتے وقت کھول دیئے گئے پھر ویسے ہی ہوگئے۔ آپ کا چہرہ متبسم تھا۔ سنت نبوی کے مطابق آپ کو کفن دیا گیا۔ (بحوالہ:مکتوبات امام ربانی مجددالف ثانی،افکار مجدد الف ثانی اور عصر حاضر،ارمغان امام ربانی)
 

Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 731952 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More