بسم اﷲ الرحمن الرحیم
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بارہ روزہ دورہ ایشیا اپنے اختتام کی جانب بڑھ
رہا ہے ۔اس دورے کے دوران امریکہ صدر کی سب اہم ملاقاتیں روس اور چین کے
صدور سے رہی ہیں۔ چین دنیا کے نقشے پر ابھرتی ہوئی معاشی سپر پاور جبکہ
امریکہ اور روس دونوں معاشی و فوجی میدان میں عالمی طاقتیں تصور کی جاتی
ہیں یہ الگ بات ہے کہ دنیا کی سیاست میں امریکہ کا اثر روس کی نسبت ذیادہ
ہے ۔ روس اورامریکہ دونوں شام کے جنگی محاذ پر موجود ہیں فریق اول شام کے
صدر بشار الاسد اور امریکہ داعش کے خلاف برسرپیکار ہے ۔ یہ بات سمجھنی
ضروری ہے کہ شام میں روس اور امریکہ کا ہدف ایک نہیں ہے ۔ البتہ دعویٰ یہی
ہے کہ وہ داعش اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ کر رہے ہیں تاہم روس شامی صدر
بشاالاسد کی افواج کا ساتھ دے رہی ہیں جن کا ہدف داعش کے ساتھ ساتھ وہ سنی
گروپس اوران کے علاقے بھی ہیں جو بشار الاسد سے نجات حاصل کرنے کے دعوے پر
ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں جبکہ امریکہ کا ہدف داعش کے ساتھ ساتھ بشار الاسد
کی افواج بھی ہیں ۔ابھی ایک روزپہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر
ولادیمیر پوٹن نے اتفاق کیا تھا کہ شام کے مسئلے کا کوئی جنگی حل نہیں ہے ۔دونوں
ممالک کے مطابق شام میں کئی سالہ خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے مذاکرات ہی
حتمی آپشن ہو سکتا ہے تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ شام تنازع کے تمام فریق
ان مذاکرات کا حصہ ہوں ۔ اس اتفاق کے مطابق بشار الاسد کو ان سنی گروپوں کے
ساتھ بھی مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ہو گا جو بشار الاسد کو صدارت کی کرسی
پرنہیں دیکھنا چاہتے ۔ اب یہ دوسری بات ہے کہ ان مذاکرات کے ذریعے شام کے
حصے بخرے کیے جائیں گے جن میں ایک پر بشارالاسد اور دوسرے پر سنی گروپس کی
حکومت ہو گی یا اس کا کوئی متبادل حل بھی نکالا جا سکتا ہے ۔ بظاہر روس کسی
طرح بھی بشارالاسد کو منظرنامہ سے ہٹانے کا قائل نہیں جبکہ امریکہ
بشارالاسد کے استعفیٰ کا منتظر ہے۔ تاہم دونوں ممالک داعش کے خاتمہ کے لیے
متفق نظر آرہی ہیں۔ابھی مذاکرات کے ذریعے شام کی خانہ جنگی کے مسئلہ پر
اتفاق رائے ہوئے ایک دن ہی گزرا تھا کہ شام سے دو خبریں سامنے آئیں ۔ پہلی
خبر کے مطابق روس نے کی شام پر بمباری کے متعلق ہے۔مشرقی شام پر موجود
مہاجرین کے دو کیمپوں میں روسی فضائیہ کی بمباری سے نو بچوں سمیت پچاس
افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ان دونوں کیمپ کا داعش کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا
البتہ یہ ضرور خیال کیا جا رہا ہے کہ ان کیمپوں میں پسنے والے مہاجرین کا
تعلق اس سنی علاقے سے ہے جہاں بشارالاسد کو ہٹانے کی تحریک چلائی گئی۔دوسری
اہم خبر شام کے شہر البوکمال میں بشارالاسد کی افواج اور داعش کے جنگجوؤں
میں شدید لڑائی کی ہے ۔ تفصیلات کے مطابق اس شہر کے گلی کوچوں میں داعش اور
فوج کی لڑائی کے دوران عام شہریوں کے شدید نقصان پہنچا جبکہ لڑائی کے بعد
داعش نے شامی فوج کو شکست دے کر اس شہر پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے۔اس لڑائی
کے باعث شہر سے متصل کئی دیہات کے لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے اور انہیں
اپنے گھر بار چھوڑ کر جاناپڑا۔ ان خبروں سے یہ بات بہت واضح ہے کہ روس اور
امریکہ کے بیانات تبدیل ہوئے ہیں لیکن اہداف وہی ہیں ۔یہ بات ان ممالک کے
لیے باعث تشویش ہونی چاہیے جو ان طاقتوں کے بل بوتے پر اپنی لڑائی جیتنا
چاہتے ہیں ۔ عالمی طاقتیں اپنے مفادات پر سیاست کرتی ہیں اور اسی کی بنیاد
پر اپنے اہداف اور حلیف و حریف کا تعین کرتی ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ ایشیا میں دوسری اہم ملاقات چین کے صدر شی جن پنگ سے
تھی ۔ چینی صدر شی جن پنگ گزشتہ ماہ ہی چین کی کمیونسٹ پارٹی کے صدر منتخب
ہوئے ہیں ۔ تاریخی اعتبار سے انہیں سابق عظیم چینی رہنما ماؤذے دنگ کے بعد
طاقتور اور کامیاب رہنما کے طور پر تصور کیا جا رہا ہے ۔ دوسری طرف ڈونلڈ
ٹرمپ کو اپنی صدارت کی شروعات سے اب تک مختلف تنازعات کا شکار ہونا پڑا ہے
۔ میڈیا سے لے کر اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور عدلیہ سے لے کر اپنے سابق
سفارتکاروں تک سب میں وہ نہ صرف غیر مقبول ہیں بلکہ ان کو مختلف اقسام کی
مزاحمتوں کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ تاہم اس کے باوجود ونوں رہنماؤں نے
یہ ملاقات نہایت خوشگوار ماحول میں کی ۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان 9ارب ڈالر
کی مالیت کے 20مختلف معاہدوں پر دستخط ہوئے ۔ دونوں اطراف کے میڈیا اسے
اپنے اپنے ممالک کی فتح قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ
دونوں عالمی طاقتوں کا مفادات تعاون میں وابستہ ہے۔ان کے باہمی رویے
تنازعات اور کھچاؤ کے باوجود ایک جیسے رہتے ہیں ۔البتہ تیسری دنیا کے ممالک
کی طرف ان کا رویہ الگ ہوتا ہے۔ روس جنوبی ایشیا میں بھارت کا بہت بڑا
اتحادی رہا ہے جبکہ امریکہ بھی بھارت کو ہی اپنا قدرتی حلیف گردانتا ہے ۔
جبکہ چین ہمیشہ سے ہی پاکستان کو اپنا حلیف تصور کرتا ہے اور ہر اچھے برے
وقت میں اس نے اپنا تعلق نبھایا ہے ۔ روس کا جھکاؤ بھی بہت حد تک اب بھارت
کی بجائے پاکستان کی طرف ہو رہا ہے جس کی بڑی وجہ چین کی سفارتکاری کے
علاوہ پاکستان کی فوجی قیادت کی محنت بھی شامل ہے۔اگرچہ روس نے بھارت کے
ساتھ اپنا تعلق ختم نہیں کیا تاہم بھارت کی مخالفت کے باوجود اپنا وزن
پاکستان کے حق میں رکھنا شروع کر دیا ہے۔ چین کے ساتھ گہری دوستی کے باوجود
ہمیں یہ ہر گز نہیں بھولنا چاہیے کہ عالمی طاقتوں کے تعلقات اپنے مفاد کے
گرد گھومتے ہیں ۔ ان کے رویے بالخصوص کمزور ممالک کی جانب بھی مفادات کی
مناسبت سے ہوتے ہیں۔ بھارت عالمی سطح پر پاکستان کی نسبت بہت بڑی منڈی ہے
یہی وجہ ہے کہ عالمی طاقتوں کے ان کے ساتھ تعلقات بھی اسی نوعیت کے ہیں۔
پاکستان نے ہمیشہ امریکہ کے ساتھ مل کر اس کے مفاد کے لیے کام کیا لیکن اس
کا صلہ ہمیشہ بے وفائی کی صورت میں ہی ملا۔
بدقسمتی سے عالمی طاقتوں نے کمزور ممالک کو مختلف تنازعات میں الجھا کر ان
کے سارے وسائل اسلحہ کی خرید و فروخت میں لگا رکھے ہیں ۔ مشرق وسطیٰ ہو یا
جنوبی ایشیاہر دو میں کمزور ممالک کو ایک دوسرے سے خطرہ بنا دیا گیا ہے ۔یہ
بات بہت اہم ہے اور سمجھنے سے تعلق رکھتی ہے کہ ہر خطے میں کچھ ممالک کو
کچھ ممالک کے خطرہ بنا دیا گیا ہے۔ اگرچہ کچھ علاقائی مسائل بھی موجود ہیں
لیکن یہ مسائل تو عالمی طاقتوں کے بھی ہیں لیکن وہ ٹکراؤ کی بجائے تعاون کی
حکمت عملی اپناتے ہیں ۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کمزور ممالک اسلحہ کی
صنعت کو ترقی دینے پر مجبور ہوتے ہیں اور ان کے عوام معاشی مسائل کا شکار
ہو جاتے ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ ایشیا میں جو سب سے اہم سبق ہے و ہ ٹکراؤ
کی بجائے تعاون کی پالیسی پر عمل پیرا ہونا ہے۔ اگر دیگر ممالک اپنے ملک
میں معیشت کی بحالی اور ترقی چاہتے ہیں تو تعاون کی پالیسی کی حکمت عملی کو
اپنا کر ہی ایسا ممکن ہے۔ عالمی طاقتوں کے اہداف اپنی معاشی حالت اور
مفادات کو سامنے رکھ کر بنائے جا تے ہیں ۔دیگر ممالک جن میں بالخصوص جنوبی
ایشیا کے ممالک خاصے اہم ہیں ان کو بھی اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا
ہوگی تاکہ وہ اپنے معاشی وسائل عالمی طاقتوں کو مضبوط کرنے کی بجائے اپنی
معاشی حالت کو بہتر بنانے میں لگا سکیں۔
|