بسم اﷲ الرحمن الرحیم
ایک معروف سفارتکار اور دانشور نے کہا تھا کہ اگر آپ کوجنگ کا نقارہ سنائی
نہیں دے رہا تو آپ کو بہرہ ہوجانا چاہیے۔ طاقت کا حصول انسانی فطرت میں ہے
اور ریاستیں بھی انہی انسانوں نے مل کر بنی ہیں۔اپنی بقاء کے لیے ریاستیں
دوسروں کا وجود برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔یہی انسانی فطرت ہے کہ وہ
اپنی بقاء سوچتا ہے اور اپنی بقاء کے لیے ہر طرح کے وسائل کی تلاش میں رہتا
ہے۔دنیا میں کوئی بھی ادارہ یا ایسی طاقت موجود نہیں ہے جو کسی کمزور ریاست
کو طاقت ور ریاست سے کلی طور پر تحفظ فراہم کر سکے ۔ہر ریاست یا ادارے کی
پالیسی اس کے مفادات کے گردگھومتی ہے۔جنوبی ایشیا کی صورتحال میں کچھ بھی
ایسا نہیں ہے جو سمجھ سے بالا تر ہو۔ جنوبی ایشیا کے امن کا انحصار پاک
بھارت تعلقات پر ہے اور یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے روایتی حریف ہیں۔دنوں
ممالک میں درجنوں مسائل موجود ہیں جو انسان کے بنیادی حقوق سے جڑے ہوئے ہیں
تاہم انہیں نظر اندا ز کرکے دونوں ممالک اربوں روپے اپنے دفاعی پروگراموں
پر خرچ کرنے کے لیے مجبور ہیں ۔جنوبی ایشیا میں برتری کی خواہش نے بھارت کو
ان ممالک کی صف میں لاکھڑا کیا جو اپنے دفاعی اخراجات پر تو اربوں روپے خرچ
کر رہے ہیں لیکن مقامی سطح پر غربت میں اضافہ اور معیار زندگی میں مسلسل
کمی ہو رہی ہے ۔ بدقسمتی سے جنگی جنون رکھنے والے بھارت کی ہمسایہ میں
پاکستان بھی ہے جس کی سلامتی کو شروع دن سے ہی بھارت سے خطرہ رہا ہے ۔بھارت
ایک طرف جنوبی ایشیا میں برتری کے خواب آنکھوں میں سجائے خطے میں اسلحہ کے
انبار لگا رہا ہے تو دوسری جانب ایشیا پیسیفک میں چین کی برھتی ہوئی قوت کو
روکنے کے لیے بھارت کو علاقائی طاقت بنانا امریکہ کی مجبوری بنتا جا رہا ہے
۔دفاعی میدان میں امریکی تعاون کی وجہ سے بھارت خطے میں اپنے برتری کو قائم
کرنے کے لیے ہر طرح کے اقدامات کرنے کے لیے تیار ہے تاہم پاکستان بھارت کے
اس عزم کی تکمیل میں سب سے بری رکاوٹ ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ بھارت سے برابری
کی سطح کے تعلقات کی خواہش ظاہر کی ہے جسے بھارت کی جانب سے مسترد کیا جاتا
رہا ہے۔ پاک بھارت تعلقات کی خرابی کی بنیاد تو بہت سے مسائل ہیں تاہم
بھارت کے اپنے دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بھی خیر سگالی کے بندھن
میں بندھے ہوئے نہیں ہیں۔
موجودیہ صورتحال میں بھارت ایک طرف پاکستان کی سرحد پر اپنی جارحیت استعمال
کر رہا ہے جبکہ دوسری جانب چینی سرحد پر بھی چھیڑ خانی میں مصروف ہے ۔ یہی
وجہ ہے کہ چین اور پاکستان کو بھارت ہمیشہ دشمن کی نظر سے ہی دیکھتا آیا
ہے۔اس وقت پاکستان کے ساتھ لائن آف کنٹرول اورورکنگ باؤنڈری پر بھارت کی
جانب سے بلا اشتعال فائرنگ ک واقعات میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہاہے جبکہ
دوسری طرف چین کی سرحد پر بھی بھارت کی جارحیت آئے روز دیکھنے میں ملتی ہے۔
ان دونوں ممالک کی سرحد پر بھارتی جارحیت کی وجہ سے گزشتہ ماہ کے آخر میں
بھارت نے جدید روایتی ہتھیاروں کی خریداری کے لیے40ہزار کروڑ روپے کے
منصوبے کی منظوری دی گئی۔یہ رقم جدید چھوٹے ہتھیار خریدنے کے لیے استعمال
کی جائے گی جو پا کستان یا چین کی سرحد پر استعمال ہوتے ہیں ۔ یہ بھارتی
بجٹ کی تاریخ میں مہنگا ترین منصوبہ ہے ۔اس منصوبے کے مطابق پرانے اور
متروک چھوٹے روایتی ہتھیاروں کی جگہ جدید ہلکی مشین گن ، رائفلزاور کاربین
رائفلزخریدی جائیں گی ۔ یہ ہتھیارعام طور پرسرحدوں پر موجود فوجی ہی
استعمال کرتے ہیں اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان ہتھیاروں کو پاکستان اور
چین کے سرحدوں پر استعمال کیا جا ئے گا ۔ بھارتی میڈیا کی جانب سے بھی اس
کی تصدیق کی گئی کہ یہ خریداری سرحدوں پر موجود خطرات سے نمٹنے کے لیے کی
جا رہی ہے ۔اکتوبر میں جاری ایک اور رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مالی سال کے
ابتدائی چھ ماہ میں ڈیفنس بجٹ کا 65فیصد خرچ کرنے کے باوجود بھارتی وزارت
دفاع مزید22ہزار کروڑ روپے طلب کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کا شمار
اسلحہ درآمد کرنے والے ممالک میں پہلے نمبر پر ہوتا ہے ۔ایک طرف دنیا میں
اسلحہ کی فروخت کرنے میں امریکہ کا پہلا نمبر ہے تو دوسری جانب خریداری کے
لحاظ سے بھارت کا پہلا نمبر ہے اور یہ بھی اتفاق ہے کہ دونوں ممالک ایک
دوسرے کواپنا قدرتی حلیف کہتے ہیں۔عالمی تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق دنیا
میں اسلحہ کی کل خریداری کا چودہ فیصد صرف بھارت خرید رہا ہے۔ طاقت کا حصول
یقینی طور پر رویوں میں بھی تبدیلی پیدا کر دیتا ہے اور یہی کچھ بھارت کے
ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ اسلحہ کی خریداری کے ر نئے معاہدے کے بعد اس کے اپنے
ہمسایہ ممالک بالخصوص پاکستان کے بارے میں تیور ہی بدل جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے
کہ خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے اور اپنی بقاء کے لیے پاکستان کو
بھی دفاع بجٹ میں اضافہ کرنا پڑتا ہے۔
جنوبی ایشیا میں اس وقت جنگ کے طبل بجائے جا رہے ہیں اور یہ بجانے والا ایک
ہی ملک بھارت ہے جسے امریکہ کی مکمل حمایت حاصل ہے ۔ گزشتہ سال بھارتی آرمی
چیف نے برے واضح انداز میں کہا تھا کہ بھارتی فوج بیک وقت چین اور پاکستان
کو جواب دینے کے لیے تیاری کر رہی ہے ۔ بھارت کی جانب سے خطے میں جارحیت
میں بڑھتی جا رہی ہے ۔ پاک بھارت سرحد پر بھارتی شتعال انگیزی میں مسلسل
اضافہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ بھارت طبل جنگ بجا رہا ہے ۔ یہی نہیں بلکہ
جنوبی ایشیا میں دیگر ممالک کو بھی پاکستان کے خلاف اکسانے اور پاکستان کے
خلاف دہشت گردی کو فروغ دینے کی پالیسی بھی جاری ہے۔ پاک چین تعلقات کی
مضبوطی بھی بھارت کو خطے میں اس کی بالا دستی کے لیے خطرہ محسوس ہو رہی ہے
۔ یہی وجہ ہے کہ پاک چین کا مشترکہ منصوبہ پاک چائنہ راہداری پر بھارت اور
اس کے حلیف امریکہ کی جانب سے شدید ردعمل ظاہر کیا جا رہا ہے ۔ بھارت خطے
میں اپنی بالادستی کے لیے آگ سے کھیلنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ یہی بات گزشتہ
روز چئیرمین چیف آف سٹاف جنرل زبیر حیات نے ایک سیمینار میں کی ۔ جنرل زبیر
حیات نے واضح طور پر کہا کہ بھارت نے خطے کے اجتماعی مفاد ک منصوبے پاک چین
اقتصادی راہداری کے خلاف 55ارب روپے مختص کر رکھے ہیں ۔امریکہ کے ساتھ
بھارت کے معاہدوں نے خطے میں امن کی صورتحال کو پیچیدہ کر دیا ہے۔ بھارت نے
بلوچستان میں علیحدگی پسندوں اور فاٹا میں دہشت گردوں کو پاکستان کے خلاف
ہر طرح کی سہولت فراہم کی۔کنٹرول لائن پر بھارت نے 12سو سے زائد مرتبہ فائر
بندی کی خلاف ورزی کی جس کے باعث ایک ہزار پاکستانی اور تین سو فوجی شہید
ہو چکے ہیں۔جنوبی ایشیا کو جن چیلنجز کا سامنا ہے ان میں بھارت کا بیلسٹک
میزائل ڈیفنس ، کولڈ سٹارٹ اور پرو ایکٹو ڈاکٹرائن ہے ۔بھارت کی حمایت کی
وجہ سے پاکستان کو افغان سرحد پر بھی حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔افغان
حکومت کی جانب سے کمزور سرحدی دفاع کے باعث بھارتی حمایت یافتہ دہشت گردوں
کے حملوں کی وجہ سے پاکستانی پوسٹیں غیر محفوظ ہورہی ہیں اور بھارتی اثر کے
باعث افغان حکومت کسی طرح کے سخت اقدامات کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔ جن
حالات سے جنوبی ایشیا کا خطہ گزر رہا ہے اور بالخصوص پاک بھارت اور
افغانستان کی سرحدوں پر جس صورتحال کا سامنا کیا جا رہا ہے اس سے واضح ہوتا
ہے کہ بھارت کی جانب سے جنگ کی تیاریاں مکمل کی جا چکی ہیں ۔ پاکستان اور
بھارت دونوں ہی ایٹمی طاقت ہیں اور ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ممالک ہیں ۔ ان
حالات میں امریکہ کی جانب سے بھارت کے ساتھ دفاعی میدان میں معاہدے جنگ کی
چنگاری کو مزید ہوا دے رہے ہیں ۔پاکستان کی امن کی خواہش کو اگر بھارت کی
جانب سے کمزوری سمجھا گیا تو یقینا ہونے والی جنگ سے پاکستان ہی نہیں بلکہ
بھارت بھی شدید متاثر ہو گا۔ اس موقع پر ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکہ اپنے
ذاتی مفادات کی بجائے خطے کی بقاء کے لیے سوچے اور بھارت کے ساتھ دفاعی
معاہدوں کے ذریعے عدم توازن پیدا کرنے کی کوشش نہ کرے۔ جنوبی ایشیا کی اسی
میں بقاء ہے ۔
|