زندگی اپنے آپ میں کسی معجزہ سے کم نہیں ۔ روز روز
انہونی ہوتی ہے مگر ہم چونکہ کچھ چیزوں کو دیکھنے کے روادار ہی نہیں ہوتے
اس لیے وہ ہماری ذات کو مس کیے بغیر ہی قدرت کی اس وسیع کائنات کا خاصہ بن
جاتی ہے۔ یہ پہلی بار تھا کہ وہ اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو غور غور سے دیکھ
رہی تھی۔ وہ اپنے چہرے کو بھی صرف ضرورت کے تحت ہی دیکھتی تھی۔ خاص کر تب
جب اسے آفس جانا ہوتا ، بچوں کے سکول جانا ہوتا۔ کسی فنگشن میں جانا ہوتا۔
آ ج صبح اُٹھتے ہی اس کی نظر اپنے ہاتھوں پر پڑی ۔ آج اتوار کا دن تھا۔
اس نے آفس سے چھٹی لے رکھی تھی۔ اپنے شوہر کو سوتے ہوئے اس نے تھوڑی دیر
دیکھا اور پھر جا کر آئینہ کے سامنے کھڑی ہو گئی ۔ زندگی کے اکتالیس سال
گزر چکے ہیں ۔ اکتالیس سال اور میں ۔
ایک اداسی اس کے وجود کو دو حصوں میں بانٹ رہی تھی۔ ایک ٹھنڈی آہ ۔ اسے
اپنا جسم ٹھنڈا یخ ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ اس کی انکھوں کے گرد حلقے تھے ۔
بالوں میں اچھی خاصی چاندی تھی۔ امی آپ اپنا خیال رکھا کریں نا۔ اپنے بال
دیکھیں ۔ چہرہ دیکھیں ،بہت کمزور لگ رہی ہیں آپ ۔ اسے اپنی آواز اپنے
دماغ میں چلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ جو چونسٹھ سال کی اپنی ماں سے ایک
ہفتہ پہلے اس نے کی تھی۔
وہ اپنا لیب ٹاپ اُٹھائے دبے پاوں سٹڈی میں آ چکی تھی۔ دھیرے دھیرے اس نے
لیب ٹاپ کھولا اور پرانی تصاویر دیکھنے لگی۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کے مسکراتے
چہرے ۔ ان کے ننھے منے ہاتھوں کا لمس وہ اپنے چہرے اور ہاتھوں پر محسوس کر
سکتی تھی۔نویرہ اور امان۔ارمان ۔ پھر گرم گرم آنسو اس کے چہرے سے گزرتے
ہوے نیچے گرنے لگے اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔عجیب خوف اس کے پورے بدن
میں درد کی طرح اُٹھ رہا تھا۔ میں مر جاوں گی۔ میں بہت جلد مر جاوں گی۔
زندگی کا پیالہ کتنا بھرا ہوا ہے کوئی نہیں دیکھ سکتے ۔ اس مہ کو پیتے ہوئے
احساس ہی نہیں ہوتا کہ کتنا خالی ہو گیا۔ قدرت نے کتنا بھرا ہوا تھا ۔ ہر
کوئی انجان اپنے اپنے جام کا مزا لے رہا ہے ۔ کسی کے لیے کڑوا ہے تو کسی کے
لیے میٹھا ۔ سباس نے اپنی ذات سے توجہ ہٹانے کے لیے سوچا مگر جب خوف انسان
پر حاوی ہو جاتا ہے تو انسان بے بسی محسوس کرنے لگتا ہے۔موت کا احساس زندگی
میں ہو جانا ایک تلخ تجربہ ہے سباس نے اپنے آنسو وں کو صاف کرتے ہوئے
سوچا۔
اس کے گردوں میں اکثر مسلہ رہتا تھا۔ لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ اسے اکثر
درد کیوں رہتا ہے۔ وہ اپنی ذات کے سوا ہر کسی کا خیال رکھنے کو فرض سمجھتی
تھی۔ایک ہفتہ پہلے ہی شدید تکلیف کے باعث جب اس نے ٹیسٹ کروائے تو اسے پتہ
چلا کہ اس کا صرف ایک گردہ ہی کام کر رہا ہے ۔ جو اب اپنا کام کرنا بند
کرنا چاہ رہا ہے ۔ ڈاکٹر نے اسے بتایا کہ اس کے زندہ رہنے کے لیے لازمی ہے
کہ کوئی اسے اپنا گردہ دے ورنہ وہ کسی وقت بھی مر سکتی ہے ۔ ڈاکٹر نے اسے
ہوسپٹل میں داخل ہونے کا کہا ۔ آج اسے ہوسپٹل میں داخل ہونا تھا۔ اس کے
شوہر اور بچوں کا خیال تھا کہ اسے کچھ نہیں ہو گا۔ کوئی نہ کوئی غریب جن
اپنا گردہ بیچے گا تو وہ سباس کی زندگی کا ضامن ن جائے گا۔ اپنے گھر والوں
میں سے کسی کے دل میں نہیں آیا کہ وہ اپنا گردہ سباس کو دے دیں ۔ انسان جن
اپنوں کے لیے پوری زندگی جی رہا ہوتا ہے، کبھی کبھی موت ان کی حقیقت سے
روشناس کروا دیتی ہے۔ سباس کے دل میں یہ بات آئی مگر وہ ہر تلخ تجربہ کی
طرح اسے بھی بڑی خندہ پیشانی سے پی گئی۔
گھنٹی بجی ۔ سباس منہ صاف کرتی ہوئی جلدی سے اُٹھی اور دروازہ کھولنے چلی
گئی۔ مریم تم ۔ سات دن کے بعد ۔۔۔۔کام کرنے والی عورت نے سباس کی بات سنتے
ہی منہ نیچے کر لیا ۔ وہ باجی ، میر ا میاں بیمار تھا۔
سباس نے مزید کچھ نہیں کہا۔ وہ بہت نرم دل تھی۔ ہمیشہ نرمی ہی سے کام لینا
اس کا شیوہ تھا۔ مریم نے سباس کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ باجی آپ
ٹھیک ہو۔ آپ رو رہی تھی۔سباس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ہاں ۔
سباس نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا مریم تم نے بتایا تھا کہ تمہارا میاں
اندھا ہے۔ مریم نے کہا۔ جی باجی اندھا ہے ۔ سباس نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے
کہا۔ اگر میں مر گئی تو میری انکھیں تمہارے شوہر کو مل جائیں گیں ۔ میں لکھ
کر دے جاوں گی۔ مریم نے اداس ہوتے ہوئے کہا ۔ باجی آپ کیوں مرو، مریں آپ
کے دشمن ۔ سباس نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ آج سے میں ہوسپٹل چلی جاوں
گی۔ شاہد کبھی واپس نہ آنے کے لیے۔ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ میرے گردے نا کارہ
ہو رہے ہیں ۔ مریم نے افسردگی سے پاس آتے ہوئے کہا باجی ۔ کوئی علاج نہیں
۔ سباس ہے ۔علاج ۔ ہے تو۔ مگر مجھے نہیں لگتا کہ ہو پائے گا۔ مریم نے رونی
شکل بناتے ہوئے کہا۔ کیا پیسے نہیں ہیں آپ کے پاس ۔ سباس نے مسکراتے ہوئے
کہا۔ نہیں کوئی ایسا انسان نہیں جو مجھ سے اتنی محبت کرتا ہو کہ اپنے جسم
کا کوئی حصہ مجھے دے سکے۔ پیسہ تو ہے۔مجھے افسوس اس بات کا نہیں کہ میں مر
جاوں گی۔ مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ میں نے اپنا خیال کیوں نہیں رکھا۔
ہمیشہ دوسروں کے لیے جیتی رہی۔ دوسر ے کیسے خوش رہیں گئے یہی سوچتی رہی۔
کبھی اپنے بارے میں بیٹھ کر سوچنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ یوں کہوں کہ خیال
ہی نہیں آیا ۔کیسی جھوٹ کی زندگی جیتے ہیں ہم لوگ۔ اپنے گھر اور آفس کو
دیکھتے دیکھتے میں خود کو دیکھنا بھول ہی گئی تھی۔ وہ انسان جو میرا سب سے
ذیادہ اپنا تھا۔ میرا وجود اسے ہی میں نے سب سے کم وقت دیا۔ وہ پھوٹ پھوٹ
کر رونے لگی۔ مریم نے تھوڑا قریب آ کر اسے تسلی دی ۔ مریم کے جسم اور
کپڑوں کی بدبو کو محسوس کرتے ہوئے وہ صوفہ پر سے اُٹھی اور اندر چلی گئی۔
سباس کیا تم تیار ہو۔ عارف نے پرفیوم لگاتے ہوئے پوچھا۔ ہاں سباس نے دھیرے
سے اداس لہجے میں کہا۔ عارف میں چاہتی ہوں کہ جب میں مر جاوں تو میری
انکھیں مریم کے شوہر کو دے دی جائیں ۔ عارف کیا؟ تم پاگل ہو ۔ تم کہاں مر
رہی ہو ۔ کوئی نہ کوئی ڈونر مل جائے گا۔ خرید لیں گئے ہم گردہ ۔ سباس پھر
بھی ۔ اگر نہیں ملا تو۔ عارف نے کچھ تلخ ہوتے ہوئے کہا۔ مریم کے شوہر کو ہی
کیوں ۔ وجہ۔
سباس ۔ میری انکھیں ہیں ،جس کو مرضی ہی دوں ۔ آپ ایسے کیوں پوچھ رہے ہیں ۔
عارف نے لہجہ برقرار رکھتے ہوئے کہا۔ مرنے سے پہلے ہی دے دو تم کیوں کہ
مجھے ایسا کچھ نہیں کرنا۔ سباس کو شدید غصہ آیا وہ اپنے غصے کو پی گئی۔
شادی کے بیس سال اس نے عارف کے ساتھ گزارے تھے ۔وہ اکثر روکھا بولتا ۔ مگر
آج سباس کو اس کا لہجہ انتہائی بُرا محسوس ہو رہا تھا۔
ہوسپٹل میں دو دن گزر چکے تھے ۔ سباس کی ماں اسے دیکھنے آئیں ۔ انہوں نے
روتے ہوئے کہا۔ کیا میرا گردہ نہیں لگ سکتا ، سباس اپنی ماں کی بات سن کر
رونے لگی ۔ ڈاکٹر نے جو سباس کو چیک کرنے آئی تھی ، مایوسی سے کہا۔ نہیں
آنٹی آپ بہت بوڑھی ہیں ۔سباس کی تکلیف میں وقت گررنے کے ساتھ ساتھ اضافہ
ہو رہا تھا۔ اب وہ دوسرو ں کی بے حسی کا سوچنے کی بجائے اللہ سے جلد اپنی
تکلیف دور کرنے کی دعائیں مانگ رہی تھی۔ اس نے اپنی ماں سے کہا۔ امی آپ
اللہ سے دُعا کریں کہ میری تکلیف جلد دور کر دے ۔ اب تکلیف برداشت نہیں
ہوتی۔
سباس کی ماں رونے لگی ۔ میں ہمیشہ کہتی تھی سباس تم مجھےغسل دینا۔ میری
بیٹی ۔ تم آج مجھ سے کہہ رہی ہو کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ روتے روتے بے ہوش ہو
گئیں ۔
سباس کا آپریشن ہو چکا تھا۔ سباس کی انکھیں کھلیں تو اس کے تمام گھر والے
کھڑے تھے۔ وہ حیران تھی کہ کسی نے اسے گردہ دیا تھا۔ مگر کسی نے۔ سباس نے
اپنی نحیف سی آواز میں پوچھا۔ مجھے گردہ کس نے دیا۔ عارف نے مسکراتے ہوئے
کہا۔ تم ٹھیک ہو۔ سباس کی ذبان سے پھر وہ ہی سوال نکلا۔ مجھے گردہ کس نے
دیا؟
نویرہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ امی وہ مریم تھی نا۔ ہمارے گھر میں کام کرنے
والی ۔۔۔۔۔سباس پھر عنودگی میں چلی گئی ۔ دوسری دفعہ جب اسے ہوش آیا تو وہ
اکیلی تھی ۔ مریم ؟ مریم نے مجھے اپنا گردہ دیا۔ وہ حیران تھی ۔ سباس ہمیشہ
اس سے فاصلہ رکھتی تھی۔ اگرچہ بہت دفعہ اس نے مریم کی مالی مدد کی تھی ،
مگر اس سے اس کی ایسی کوئی جذباتی وابستگی تو نہیں تھی کہ وہ اپنے جسم کو
اس کی وجہ سے کٹواتی۔ اسے کہیں دفعہ اس سے کراہت محسوس ہوئی تھی۔ مریم کے
کپڑے اکثر گندے اور جسم اکثر بدبو دار ہوتا تھا۔وہ جس سے قریب میں بیٹھنا
پسند نہیں کرتی تھی ، اس نے مجھے بچانے کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دروازہ کھلا۔
عارف اندر آیا۔ سباس نے دیکھا کہ عارف کے پیچھے پیچھے مریم تھی۔ مریم ۔
سباس نے مریم کو دیکھا ۔ مریم تم ۔ مجھے پھر زندگی دینے کے لیے کس نے اپنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عارف نے اس کے تجسس کو محسوس کرتے ہوئے کہا۔ مریم کے شوہر نے ۔
مریم نے مجھ سے کہا کہ اس کا شوہر صابر ،تمہیں اپنا گردہ دینا چاہتا ہے۔
سباس نے حیرت سے کہا۔ کیا۔ مریم کے شوہر نے مجھے گردہ دیا ہے۔ اپنا۔ عارف
نے کہا۔ ہاں ۔
مریم نے مسکراتے ہوئے کہا ۔ باجی اس دن میں جب گھر گئی تو میں نے اپنے شوہر
سے کہا، آپ نے کہا ہے کہ آپ اپنی انکھیں، اسے دینا چاہتی ہیں ۔ وہ ہر روز
آپ کی صحت کا پوچھتا ۔ میں نے سوچا ،شاہد وہ جلد سے جلد دیکھنا چاہتا ہے۔
لیکن پھر اس نے کہا کہ وہ آپ کو اپنا گردہ دے گا۔ آپ نے اس کے بارے میں
سوچا۔ بغیر سوچے سمجھے اس کی مدد کرنے کی سوچی تو وہ کیوں نہ کرے۔
سباس حیران تھی ،ایک اچھی سوچ اس قدر طاقت رکھتی ہے۔ اس کی انجانے میں کہی
ہوئی ایک مثبت بات نے اسے موت کے منہ سے نکال لیا تھا۔ صابراور مریم نے
گردہ ڈونیٹ کیا تھا۔ بیچا نہیں تھا۔ مثبت سوچ کی طاقت ایسی ہو سکتی ہے سباس
نے کبھی اندازہ نہیں کیا تھا۔ سباس کی زندگی بدل چکی تھی۔ اب وہ جان چکی
تھی کہ زندگی میں اصل اہمیت کس چیز کی ہے۔ اس نے صابر کے لیے میوزک ٹیچر کا
انتظار کیا تا کہ وہ بے روز گار نہ رہے۔موت نےاسے ہلکی سی جھلک دیکھا کر
زندگی سے روشناس کر دیا۔
سمندر ہو ں اپنی ذات میں ساحل نہیں ہوں میں
تاج ہوں سر کا پاوں کی پائل نہیں ہوں میں
زندگی ہوں میں سمجھ سکتے ہو تو سمجھو مجھے
موت کی طرح سمجھانے پر مائل نہیں ہوں میں |