تحریر ۔۔۔ شیخ توصیف حسین
پاکستان کی سیاست کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی حکومت کا سورج غروب ہونے
لگتا ہے تو سب سے پہلے اُسی حکومت کے متعدد مفاد پرست ارکان اسمبلی خواہ وہ
صوبائی ہو یا و فاقی اپنی سیاسی وفاداریاں فل الفور تبدیل کر کے نئی آ نے
والی حکومتی لیڈر کے تلو چاٹ کر اُس میں شامل ہو جاتے ہیں اور بعد ازاں جا
نے والی حکومتی لیڈر کو اونچی آ واز میں شور مچا مچا کر چور چور کا نعرہ
لگانے میں مصروف عمل ہو کر رہ جاتے ہیں درحقیقت یہ وہ ارکان اسمبلی ہوتے
ہیں جو اُس لیڈر کے دوراقتدار میں اُسے امیر المومنین قائد اعظم کی تصویر
باانصاف حاکم جمہوریت کا محا فظ ملک وقوم کا خادم اعلی صداقت امانت اور
شرافت کا پیکر کے علاوہ نجانے کون کونسے قصیدے پڑھتے رہتے ہیں اور وہ بھی
صرف اور صرف اپنے ذاتی مفاد کیلئے دنیا بھر کے جمہوری ملکوں کی روایت ہے کہ
جس محکمے میں کوئی بڑا سانحہ یا پھر کوئی حادثہ ہو جا تا ہے تو اُس کا وزیر
فوری طور پر از خود مستعفی ہو جا تا ہے جیسا کہ ریل کے حادثے میں ریلوے کا
وزیر مستعفی ہو جا تا ہے حالانکہ وہ نہ ریلوے ٹریک پر جھنڈی ہلا رہا ہوتا
ہے اور نہ ہی کا نٹا بدلنا اُس کی ذمہ داری ہوتی ہے اور نہ ہی وہ ٹرین
ڈرائیور ہوتا ہے لیکن پھر بھی وہ اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے حادثہ کی
ساری ذمہ داری اپنے کندھوں پر لئے مستعفی ہو کر احساس ذمہ داری کا سمبل بن
جاتا ہے لیکن افسوس صد افسوس کہ ہمارے ملک پاکستان میں تو ایسے متعدد
خوفناک حادثات رونما ہوئے ہیں لیکن آج تک کوئی وزیر احساس ذمہ داری کو قبول
کرتے ہوئے از خود مستعفی نہیں ہوا ہاں البتہ متعدد ارکان اسمبلی اقتدار کے
کھو جانے کے بعد ایک لمحہ ضائع کیے بغیر بڑی ڈھٹائی بے شر می اور ا خلاقی
اقدار کا خیال کئے بغیر نئے آ نے والے حکومتی لیڈر کو عوام کا محبوب آ
نکھوں کا تارا اور عوام کی امنگوں کا ترجمان کہتے ہوئے تھکتے نہیں آپ یقین
کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ایسا رویہ صرف ہمارے یہاں
ہوتا ہے جہاں شرم و حیا اور غیرت ناپید ہے اور عوام کی یادداشت کمزور ہے
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ارکان اسمبلی ایسا کیوں کرتے ہیں اگر جانے والا
لیڈر اتنا ہی گنہگار چور یا پھر جمہوریت کا دشمن تھا یا پھر وہ عقل سے پیدل
تھا اور اگر یہ تمام صفات اُس میں بدر جہا اتم موجود تھیں تو کیا ان ارکان
اسمبلی یا پھر کابینہ کے وزیروں میں غیرت نہ تھی کہ اُس کے دور حکومت میں
وہ اپنا استعفی اُس کے منہ پر دے مارتے یہ کہتے ہوئے کہ تم صادق اور امین
نہیں ہو تم ملک وقوم کے ساتھ دشمنی کر کے غداری کے مرتکب ہوئے ہو اس لیئے
ہم آپ کے ساتھ ایک قدم بھی چلنا گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں لیکن افسوس کہ یہ
مفاد پرست ارکان اسمبلی اور وزرا ایسا کرنے میں محض اس لیئے قاصر رہے ہیں
کہ وہ فٹ پاتھوں سے چل کر دس دس شو گر اور ٹیکسٹائل ملوں کے مالک بن چکے
ہیں پھر ان ملوں کا مال جو بغیر کسی کسٹم ایکسائز انکم ٹیکس سو شل سیکورٹی
و دیگر محصولات کی ادائیگی سے بری الذمہ ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ سرکاری
ملازموں کی ہوا نکالنے کیلئے یہ ضمیر کے سوداگر بن جاتے ہیں انھیں اس بات
کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ کوئی انھیں لوٹا کہے گا یا پھر ضمیر فروش انھیں
تو بس اپنی استانی کی وہ مثال یاد رہتی ہے کہتے ہیں کہ کسی کوٹھے والی کو
بیٹھے بیٹھے اپنے گزرے ہوئے دنوں کی یاد آئی کہ مالدار عیاش افراد نے اس کی
جوانی کو کیسے بے دردی کے ساتھ روندا تھا اسی دوران اُس کا خیال اپنی نو
خیز بیٹی کی طرف چلا گیا جس پر اُس کے اندر سے آواز آئی کہ نہیں نہیں میں
اسے اس راستے سے نہیں گزرنے دوں گی لہذا اُس نے بڑی کاوش سے ایک خوبصورت
امیر زادہ ڈھونڈا اور اپنی بیٹی کا رشتہ اُس سے طے کر دیا اس رشتے پر بیٹی
ناخوش ہو کر زاروقطار رونے لگ گئی کہ میں شادی نہیں کروں گی جس پر ماں نے
اس فیصلے کا جواز پو چھا تو لڑکی نے کہا کہ گھر میں تو برتن سے بر تن ٹکرا
جاتے ہیں میں تو پھر انسان ہوں جس گھر میں جاؤں گی اگر میرا وہاں پر کسی سے
تکرار ہو گیا تو وہ مجھے فوری طور پر یہ طعنہ دے گے کہ چل ری بیٹھ تو تو
کنجری کی بیٹی ہے ماں میں تو ساری عمر یہ طعنے سن سن کر جلتی رہوں گی یہ
سننے کے بعد ماں بولی واہ رے میری بیٹی واہ کنجری کی بیٹی ہو کر بھی تو
اتنی سیدھی ہے سن کہ جب بھی تیری کسی سے تو تو اور میں میں شروع ہو اس سے
پیشتر کہ وہ تمھیں یہ طعنہ دے تو اُسے فورا کہہ دینا کہ چپ بیٹھ ری کنجری
کی بیٹی بس یہ فقرہ کہنے میں تم پہل کر دینا پھر تجھے کوئی کچھ نہیں کہے گا
بالکل یہی حال ان سیاسی بہروپیوں کا ہے جو خود تو کرپشن کے بے تاج بادشاہ
ہیں ہی لیکن اپنے کالے کرتوتوں کا الزام جانے والے لیڈر پر ڈال دیتے ہیں
درحقیقت تو یہ ہے کہ یہ از خود ڈریکولا کا روپ دھار کر ملک و قوم کا خون
چوس رہے ہیں جس کے نتیجہ میں ملک دن بدن مقروض جبکہ یہاں کی عوام لاتعداد
پریشانیوں میں مبتلا ہو کر بے بسی اور لا چارگی کی تصویر بن کر رہ گئی ہے
اگر آپ حقیقت کے آئینے میں دیکھے تو یہ وہ ناسور ہیں جو لوٹ مار ظلم و ستم
اور ناانصافیوں کی تاریخ رقم کرنے میں مصروف عمل ہیں اور جن کے متعلق شنید
ہے کہ ان میں سے بعض سینماؤں میں ٹکٹیں بلیک کیا کرتے تھے اور بعض ایسے ہیں
جن کے ورثا سائیکلوں کی دوکان کے علاوہ لیمن سوڈا کی بوتلیں فروخت کرتے تھے
جبکہ بعض ارکان اسمبلی ایسے ہیں جو سیاست میں آنے سے قبل انڈونیشیا میں
ٹیکسی کار چلا کر اپنی بسرواوقات کرتے تھے یہی کافی نہیں بعض ارکان اسمبلی
گجرات میں چوہدری خاندان کی کوٹھیوں کے فرش صاف کرتے تھے یہا ں یہ امر قابل
ذکر ہے کہ بعض مذہبی رہنما جن کی وراثتی زمین تھل کے علاقہ میں صرف سات
مرلہ جبکہ ان کے بزرگ دیسی حکمت سے وابستہ تھے جن کے آج نہ صرف اندرون ملک
بلکہ دوسرے ممالک میں بڑے بڑے درس جن کی مالیت اربوں کھربوں روپے ہے چلانے
میں مصروف عمل ہیں اور تو اور بعض سیاست دان سیاست سے قبل چھوٹی موٹی
فیکٹری کے مالک تھے آج نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ممالکوں میں کئی
فیکٹریوں کے مالکان بن کر بڑی شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں جبکہ یہاں کی عوام
دو وقت کی روٹی کے حصول کی خا طر در بدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہے آ ج اگر
ہمارے ملک کی پاک فوج جو ہر مقام پر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہی ہے
اور عدلیہ ان سیاسی بہروپیوں کا احتساب کرنا چاہتی ہے تو ان ضمیر کے
سوداگروں کا احتساب سیاست سے قبل کی وراثت اور آج کی وراثت کا موازنہ کر کے
احتساب کرے تو انشاء اﷲ تعالی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا
پھر کوئی یہ نہیں کہے گا کہ مجھے کیوں نکالا آ خر میں بس یہی کہوں گا
کہ یہ وطن ہمارا ہے اور ہم ہیں پاسبان اس کے |