ترجیحات کی الٹی ترتیب

ہمارے مسائل بڑے گھمبیر ہیں۔آدھی سے زیادہ آبادی کو نہ مناسب گھر میسر ہے نہ اچھی خوراک۔ صحت اور تعلیم کی سہولت تو بہت دور کی بات ہے۔تشویش تو اس بات کی ہے کہ ہم بد تدریج مذید ابتری کی طرف جارہے ہیں۔قیادت کی پالیسیاں ایسی ہیں کہ بہتری کے امکانات معدوم ہیں۔مسائل کی نوعیت کا حساب تو رکھا جارہاہے۔مگر ان کے حل کے لیے جو پلاننگ اور مشقت چاہیے نظرنہیں آتی۔بجائے معاملات سلجھیں یہ پالیسیاں انہیں مذید بگاڑنے کا سبب بن رہی ہیں۔قیادت کے پاس نہ کوئی ویژن ہے۔نہ کوئی جزبہ بس کسی نہ کسی طرح اقتدار پانے کی حسرت ہے۔اس کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کو آمادہ رہتی ہے۔اس دوڑمیں انہیں نہ تو ریاست کے وقار کی پرواہ ہے نہ ہی قوم کے مسائل کی۔ان کی ترجیح کبھی بھی قوم اور ریاست نہیں رہے۔انہوں نے اقتدار پانے کے لیے عوامی ترجیحات کو ہمیشہ نظر انداز کیا۔اس کی ترجیحات کبھی بھی ریاست اور عوام کی ترجیحات کے موافق نہیں رہیں۔

کچھ دنوں سے عدلیہ اور فو ج کے اداروں کو احتساب کے دائرے میں لانے کی قانون سازی کیے جانے کی اطلاعات آرہی تھی۔بد قسمتی سے یہ اچھا کام بھی سیاسی بے حکمتی کی نذر ہوگیا۔مسلم لیگ ن سے بغض نے اپوزیشن جماعتوں کو اس قانون سازی سے دور کردیا۔پی پی اور تحریک انصاف دونوں کی جانب سے جمہوریت اور مساوات کا ڈھنڈورہ پیٹا جاتارہاہے۔بد قسمتی سے دونوں جماعتوں نے قوم اور ملک کے مفادکی بجائے اپنا گروہی مفاد مقدم رکھا۔محض اپنی سیاسی حریف مسلم لیگ ن کو نیچا دکھانے کے لیے اس قانون کی مخالفت کی۔ پہلے پیپلز پارٹی ججز اور جرنیلوں کو یکساں احتساب قانون کے دائرہ کارمیں لانے کے قانون سے دستبردارہوئی تھی۔بعد میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے بھی نئے احتساب کمیشن کی مخالفت کردی۔حیران کن طور پر اس قانون سے متعلق تجویز پی پی کی طرف سے پیش کی گئی تھی۔ تحریک انصا ف نے بھی اس تجویز سے مکمل اتفاق کیا تھا۔اب دونوں جماعتیں اپنی رائے بد ل چکی ہیں۔پی پی جمہوریت کی چیمپٗین ہونے کادعوی کرتی ہے۔جبکہ تحریک انصاف تبدیلی کی بات کررہی ہے۔اس نئے احتساب کمیشن میں یکساں حتساب کی بات کی گئی تھی۔دونوں جماعتوں کی طرف سے اس قانون کی مخالفت سے ان جماعتوں کے قول وفعل کا تضاد سامنے آگیا۔مسلم لیگ ن کو اگر یہ دونوں جماعتیں اس اہم قانون کی تیاری میں اعانت دیتیں تو تبدیلی اور مساوات کا ایک نیا باب شروع ہوسکتاتھا۔بد قسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔

فوج اور عدلیہ کی نظام حتساب سے بریت کے حق میں یہ دلیل دی جارہی ہے کہ فوج اور عدلیہ کا خود احتسابی پر مشتمل احتسابی نظام موجودہے۔ان کے لیے کسی دوسرے احتسابی نظام کی ضرورت نہیں۔یہ دلیل کسی دلیل کافی کی طرح ہمیشہ پیش کی جاتی رہی۔ یکساں احتساب کے حامی لوگ اس دلیل کے بعد خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔مگر وقتا فوقتا یکساں احتساب کی بات چھڑتے رہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ خود احتسابی کا نظام سے متعلق عوامی نمائندوں کو پورا اطمینان نہیں ہوپارہا۔ان دنوں جس نئے احتساب کمیشن کے قیام کی کوشش ہورہی تھی۔ اسی عدم اطمینان کے سبب تھی۔عوامی نمائندوں کی کم ہمتی ایک بار پھر آڑے آگئی۔کسی تگڑے مجرم پر ہاتھ نہ ڈالنے کی یہ کم ہمتی انہیں ہمیشہ یکساں نظام احتساب سے روگردانی پر اکساتی رہی ہے۔اب بھی وہ پسپائی اختیار کرگئے۔مسلم لیگ ن اور پی پی دو بڑی جماعتیں یکساں نظام احتساب کے حق میں ہیں۔مگر اپنی گزرے کل کی کوتاہیوں کے سبب ا س بڑے کام کا حوصلہ نہیں کر پارہیں۔ان کوتاہیوں کے سبب کچھ قوتیں انہیں بلیک میل کرکے اس طرح کی قانون سازی سے روک رہی ہیں۔تیسری بڑی جماعت تحریک انصاف تھی۔اس سے عدلیہ اور فوج کو یکساں نظام احتساب کے ماتحت لانے کی بات ویسے ہی بعید از قیاس ہے۔خاں صاحب پر الزام ہے کہ وہ پتلی تماشے کاحصہ ہیں۔انہیں عدلیہ اور فوج سے متعلق بات کرنے کی نہ تو ضرورت ہے۔اور نہ ہی تمنا۔امید تو بس پی پی سے تھی۔یا مسلم لیگ ن سے یہ جماعتیں بھی اب پیچھے ہٹ رہی ہیں۔یکسا ں نظام احتساب کاباب بند ہوجاناعوامی نمائندوں کی کم ہمتی کی دلیل ہے۔قوم سے بڑی بڑی باتیں اور دعوے کرنے والی سیاسی لیڈر شپ اندر سے کتنی کھوکھلی او رکمزور ہے۔اس کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ قوم کی ترجیحا ت اس کی لیڈر شپ کی ترجیحات سے کتنی مختلف ہیں اس کا بھی پتہ چل رہاہے۔قوم یکساں قانون۔اور یکساں سلوک کی حامی ہے۔وہ مساوات اور برابری کی قائل ہے۔اسے امیر غریب۔چھوٹا بڑا۔سبھی سے یکسا ں سلوک کیے جانے کی تمنا ہے۔مگر لیڈرشپ کی سوچ اس سے بالکل متضادہے۔اس کی ترجیحات بالکل الٹ۔آج بھی ان کی ترجیح میں قوم او رریاست کے مفاد کی بجائے ہمیشہ اپنا مفاد مقدم نظرآ رہا ہے۔
Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 123750 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.