مسلم لیگ ن جس قدر مسائل سے نکلنے کی کوشش کرتی ہے اتنی
ہی پھنستی چلی جا تی ہے کیونکہ میاں صاحب سوال تو کرتے ہیں کہ ’’مجھے کیوں
نکالا ‘‘ مگر ان خوشامدیوں اور درباریوں کا محاسبہ نہیں کرتے کہ جن کے دئیے
گئے غلط مشوروں اور لکھی ہوئی مضحکہ خیز تقاریر کی متضاد بیانی نے انھیں
ہمیشہ نکلوایا ہے اور نہ ہی اپنے آپ میں جھکاؤ اور عاجزی پیدا کرتے ہیں
بلکہ اب تو وہ تین محاذوں پر لڑ رہے ہیں اسٹیبلشمنٹ اورعدلیہ سے وہ پہلے ہی
بر سر پیکار تھے اور اب مذہبی جماعتوں سے بھی سیدھے ہو گئے ہیں مگر بدقسمتی
سے میڈیا وقتی طور پران سے خفا ہو گیا ہے کہ دھرنے کے دوران اپنی نا اہلی
اور بر بریت چھپانے کے لیے میڈیا کو بلیک آؤٹ کر دیا گیا اور تمام ذرائع
ابلاغ و مواصلات پر پابندی لگا دی گئی جوکہ انتہائی سخت اقدام تھاحالانکہ
آمریت میں بھی ایسا نہیں کیا گیا تھا ۔ایسے ہی فیصلے اور اداروں سے محاذ
آرائی میاں صاحب کو نکلوانے کی وجہ بنتی رہی ہے او ر مبصرین جانتے ہیں کہ
یہ مشہور تھا کہ بی بی سنتی نہیں اور میاں صاحب سمجھتے نہیں اور اب بھی
میاں صاحب سمجھے نہیں بدیں وجہ لگتا ہے کہ انھیں مکمل نکال دیا گیا ہے اور
ان کی سیاست ایک بند گلی میں داخل ہو چکی ہے مگر میاں صاحب کسی طور اس سچ
کو نگلنے اور برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ کمزور مؤقف اور بغیر کسی ٹھوس
دلیل کے چند افراد کی آشیر باد کیوجہ سے انھو ں نے ملک و قوم کو بھی داؤ پر
لگا رکھا ہے اب کون سمجھائے کہ مقدر مخالف ہو جائے تو تدبیر نہیں دعا کی
جاتی ہے کہ اگر حالات پلٹا کھائیں تو دنیاوی عرش سے فرش تک آنے میں کتنی
دیر لگتی ہے ۔دیکھتے ہی دیکھتے بادشاہ فقیر بن جاتا ہے اور فقیر بادشاہ بن
جاتا ہے۔ ایسے ان گنت واقعات ہم پڑھ اور سن چکے ہیں جن میں ہزاروں ،لاکھوں
لوگ جو کہ کسی وقت ارب پتی تھے مگر ایک رات میں ککھ پتی ہوگئے کہ اﷲ کبھی
دیکر آزماتا ہے اور کبھی لیکر آزماتا ہے اور اﷲ کی پکڑ بڑی سخت ہے ارشاد
باری تعالیٰ ہے کہ:(اِنّ بطشَ لربّک لشدید )بے شک تیرے رب کی پکڑ سخت ہے !
ان تمام واقعات کی ورق ریزی بتاتی ہے کہ کسی حاکم کو ایک غلط فیصلہ تخت سے
تختے تک پہنچا دیتا ہے اورایسا تب ہوتا ہے جب انسان طاقت اور دولت کے نشے
میں یاد الہی بھلا کر خود کو عقل کُل اور مالک جہاں سمجھ لیتا ہے اور حقوق
العباد کی پرواہ نہیں کرتا یہی وجہ ہے لکھنے والے بھی لکھ گئے :
ظفر آدمی اس کو نہ جانیے گا ،وہ ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکاء
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی ،جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا
بھارتی بزنس ٹائیکون’’ وجے مالیا‘‘ کے نام سے بین الاقوامی امور سے باخبر
رہنے والے واقف ہیں کہ وہ بھارتی پارلیمان کا ممبر اور مشہور بزنس مین تھا
اس کی خاص زیادہ وجہ شہرت اس کا شاہانہ انداز زندگی اورحسیناؤں کی صحبت تھی
لیکن وہ جہاں رنگین مزاجی میں بے مثال تھا وہاں مالیا مذہب سے بھی قریب
مانا جاتا تھا کیونکہ ایسے لوگوں نے مذہبی دکھاوا تو رکھا ہی ہوتا ہے ۔ایک
وقت تھا کہ جب وجے مالیا انڈیا کے امیر ترین لوگوں میں سے ایک تھا کہ اپنے
باپ کی وفات کے بعد 28سال کی عمر میں ہی وجے مالیا یونائیٹڈ بیوریریز کا
چئیرمین بن گیا جو کہ شراب کی کمپنی تھی جہاں نشہ اور پیسہ ہو وہاں شباب
خود بخود کھنچا چلا آتا ہے بدیں وجہ اسے ماڈلز اور فلمی اداکارائیں گھیرے
رہتی تھیں یہی وجہ ہے کہ اسے کنگ آف دی گڈ ٹائمز اور پلے بوائے آف دی ایسٹ
کہا جاتا تھا اس کے پاس اپنا ذاتی جیٹ ، بہت بڑا بحری جہاز، اور بے شمار
گاڑیاں اور دو سوگھوڑوں کا فارم بھی تھا ۔مالیا کی دولت کا یہ عالم تھا کہ
بینک اکاؤنٹ کھربوں سے بھرے پڑے تھے اور اسکا بزنس پچاس سے زائد ممالک میں
پھیلا ہوا تھا ۔انڈیا کی فارمولا ون ریسنگ ٹیم بھی اسی کی ملکیت تھی اس کی
دولت کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ جب ٹیپو سلطان کی تلوار کو لندن میں بیچنے
کے لیے پیش کیا گیاتو اس تلوار کو وجے مالیا نے ہی پونے دو کروڑ روپے میں
خریدا تھا ۔اس کے علاوہ مہاتما گاندھی کا سامان جب لند ن میں نیلام کیا گیا
تو قریباً13کروڑ میں اس نے خرید لیا تھا ۔وجے مالیا یو بی (یونائیٹڈ
بریوریز)گروپ کا مالک تھا جو کہ دنیا کی دوسری بڑی شراب کمپنی ہے جبکہ وہ
اسے کے علاوہ بھی کئی بڑی کمپنیوں کا مالک تھااور اس کے جائیدادیں دنیا کے
کئی ممالک میں پھیل چکی تھیں ۔1996کے کرکٹ ورلڈ کپ میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم
کو بھی وجے مالیا کی کمپنی نے سپانسر کیا تھا ۔وجے مالیا کہ جس کے دن رات
عیش و عشرت میں گزرتے تھے ایک غلط فیصلے نے اسے تباہ و بر باد کر دیا اور
وہ غلط فیصلہ یہ تھا کہ :
وجے مالیا نے کنگ فشر ائیر لائین کمپنی 2005 میں شروع کی اور انڈیا میں یہ
کمپنی بہت مشہور ہوگئی کہ انڈیا کی نمبر ون ڈومیسٹک ائیر لائین بن گئی ۔طمع
اور ہوس زر انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتی کہ جوں جوں دولت حاصل ہوتی ہے
اتنی ہی ہوس بڑھتی جاتی ہے اور اس کے لیے حلال و حرام ، جائز و ناجائز
اورنتائج کی بھی پرواہ نہیں رہتی اور دولت ضرورت سے کم ہی لگتی ہے تو وجے
مالیا نے سوچا کہ ائیر فشر ایک انٹر نیشنل ائیر لائین بن جائے لیکن قانون
کے مطابق وہ پانچ سال سے پہلے انٹر نیشنل فلائٹس شروع نہیں کر سکتا تھا ۔
وجے مالیا نے صبر کرنے کی بجائے ائیر ڈکن نامی فلائٹ خریدنے کا فیصلہ کر
لیا جوکہ پہلے سے انٹرنیشنل فلائٹ اڑا رہی تھی اور اس کے ساتھ ہی کنگ فشر
کو بھی انٹرنیشنل فلائٹ اڑانے کا پرمٹ مل گیا ۔ایک سال کے اندر ہی کنگ فشر
انڈیا کی بہت بڑی پرائیویٹ کمپنی بن گئی اور کنگ فشر کا مارکیٹ شئیر 23
فیصد ہو گیا کہ ایک کروڑ سے بھی زائد لوگ کنگ فشر پر سفر کرنے لگے ایسے میں
وجے مالیا جو پہلے ہی کھرب پتی تھا اسکی ہوس اور لالچ مزیدبڑھتا چلا جا رہا
تھا دوسری طرف اس کی عیاشیوں کی داستانیں بھی عروج پر تھیں اور ہر عروج میں
زوال بھی پوشیدہ ہوتا ہے تو 2010 میں حیرت انگیز طور پر کنگ فشر قرضوں میں
ڈوبنے لگی ۔کہنے والے کنگ فشر کی تباہی کیوجہ فیول کی بڑھتی قیمتیں ، سٹاف
کو دوسری ائیر لائینز سے زیادہ تنخواہیں دینا مگر ان کا اس تندہی سے کام نہ
کرنا اور ڈیکن نامی ائیر لائین کو خریدناجو کہ پہلے ہی خسارے میں چل رہی
تھی اور سب سے بڑی وجہ اپنے اکلوتے بیٹے کو اٹھارہ سال کی عمر میں کنگ فشر
کا چئیر مین بنا دینا قرار دیتے ہیں چونکہ مالیا کا بیٹا بھی شراب و شباب
کا رسیا تھا اور بزنس کے اتار چڑھاؤ سے لاعلم تھا شاید یہی وجہ تھی کہ کنگ
فشر آہستہ آہستہ ڈوبتی چلے گی حتہ کہ سٹاف کی تنخواہوں کی ادائیگی بھی مشکل
ہوگئی بدیں وجہ ملازمین سڑکوں پر نکل آئے اور جگہ جگہ وجے مالیا کے خلاف
مظاہرے شروع ہو گئے ۔
وہ وجے مالیا جس نے کبھی ہار اور ذلت نہیں دیکھی تھی وہ اسے انا کا مسئلہ
بنا بیٹھا اور بنک سے قرضے لے کر کنگ فشر چلانے کی کوشش کرنے لگامگر تمام
کوششیں بے سود ثابت ہوئیں چونکہ بے احتیاطی بہت ہو چکی تھی اور یوں 2012
میں کنگ فشر کو بند کر دیا گیا اور اس کا لائسنس بھی منسوخ ہو گیا ۔ کنگ
فشر پر 9ہزار کروڑ کا قرضہ چڑھ چکا تھا ۔اپنی کمپنی کو بچانے کے لیے وجے
مالیا نے 17 بینکوں سے قرضہ لیا تھا جو ابھی تک واپس کرنا ہے ۔غریب ملازمین
احتجاج کر کے تھک ہار کر بیٹھ گئے ،بنک خاموش ہوگئے اورادارے پیچھے لگ گئے
۔بنک اکاؤنٹ منجمد ہونے لگے ،جائیدادیں ضبط ہونے لگیں تو وجے مالیا یو کے
میں ر وپوش ہو گیا اور اس نے بھارت کو ہمیشہ کے لیے خیر آباد کہہ دیا ۔وجے
مالیا کو بھاگنے کا موقع کس نے دیا تاحال یہ سوال ہے ۔۔۔تاہم وجے مالیا نے
الٹا بھارت سرکار کو اس تباہی کی وجہ قرار دے دیا اور کہا کہ بھارتی غلط
قوانین کی وجہ سے کنگ فشر خسارے میں گئی ہے لہذا حکومت کو اس کا خسارہ بھی
پورا کرنا چاہیے ۔اس کے بعد وجے مالیا کو ’’اشتہاری ‘‘قرار دے دیا گیا ۔وجے
مالیا نے بنکوں سے معاملات طے کرنے کی بھی درخواست کی مگر کسی درخواست کو
قابل غور نہ سمجھا گیا ۔وجے مالیا انڈیا سے کٹ گیا کیونکہ لوگوں میں اس کے
خلاف نفرت پھیل چکی تھی اس کی جائیدادیں ضبط کر لی گئیں اور اس کا پسندیدہ
بحری جہاز بھی نیلام کر دیا گیا ۔بد عنوانی اور دھوکہ دہی کے الزامات کی
وجہ سے اسے پارلیمان سے بھی مستعفی ہو نا پڑا ۔وجے مالیا کو اپریل 2017 میں
لندن سے گرفتار کر لیا گیا تھا مگر بعد ازاں ضمانت پر رہا کر دیا گیا ۔اور
اسے دو ماہ قبل دوبارہ گرفتار کر لیا گیا مگرپھر وجے مالیا نے اس گرفتاری
کو چیلنج کیا اور ضمانت پر رہا ہوگیا۔ آج بھی یہ شخص بھارت کو مطلوب ہے مگر
وہ کہاں ہے اور کیسے پکڑا جائے گا یہ کوئی نہیں جانتا مگر یہ تو طے ہے کہ
وجے مالیا پر زمین تنگ ہو چکی ہے کہ اسے وہ آزادی اور عیاشی حاصل نہیں جس
میں اس کے شب و روز غرقاں تھے کہ دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہونے
والا وجے مالیا در در کی ٹھوکریں کھا رہا ہے ۔
قارئین کرام ! یہ خدائی قانون ہے کہ جو لوگ خدا کو بھلا دیتے ہیں انھیں خدا
بھول جاتا ہے کہ وہ تو بے نیاز ہے بلاشبہ جو لوگ آج زیر عتاب ہیں کہیں نہ
کہیں ان کی زندگیاں گواہ ہیں کہ انھوں نے طاقت میں سب بھلا کر اپنی جیبیں
بھریں اور حق داروں کا حق ان تک پہنچانے میں غافل رہے جبکہ دوسرے مجبوراً
خاموش رہے بدیں وجہ سزا پوری قوم پر تقسیم ہو چکی ہے ۔قرآن پاک میں ارشاد
باری تعالیٰ ہے کہ ہم نے قوموں کے خیر و شر کا دارومدار خود ان کے اپنے
اعمال پر رکھ دیا ہے ۔جو قوم یہ کہتی ہے کہ کیا کریں کہ حالات اور قسمت نے
ہمیں پیچھے کر دیا ہے وہ درحقیقت اپنی نادانیوں اور غلط حکمت عملیوں کا
بزدلانہ اظہار کرتی ہے ۔قرآن کہتا ہے کہ جو جیسا گمان کرتا ہے اﷲ اس کے
گمان کے ساتھ ہے ۔جب معاملات اور حالات کے بگاڑ کے نتائج انتہا کو پہنچ
جائیں تو پھر حتمی طور پر ایک ہی آواز آتی ہے :’’اب پچھتائے کیا ہوت ۔۔۔جب
چڑیا ں چگ گئیں کھیت ‘‘۔ |