انسان کے لیے اس کا مذہب اس کی ذات۔جان۔مال اور دیگرتمام
چیزوں سے بڑھ کرہوتاہے۔ہمارا عقیدہ ہے کہ جب تک ہمارے لیے ہمارے نبی اکرمﷺ
کی ذات کی محبت اور اہمیت ہماری ذات۔مال۔اولاد اور تمام اشیاء سے بڑھ کر نہ
ہو۔ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔ہمارا عقیدہ یہ بھی ہے کہ ہمارے مذہبی
رہبرین۔اکابرین اور نمائندگان سب سے معبتر سب سے باخبر اور سب سے بہتر
کردار کے حامل ہوں۔مذہب کو تما م دیگرچیزوں سے مقدم جاننے کے سبب مذہبی
نمائندگان کو بھی کردار اور معیار کے اعتبار سے ممتاز ہونا چاہیے۔اگر یہ
نمائندے کم علم۔کم ظرف ہونگے تو دین میں فرقے بازی جنم لے گی۔معاملات کی
ادھوری یا غلط تشریح سے غلط فہمیاں بڑھتی ہیں۔ایسی غلط فہمیوں نے متعدد بار
خلفشار کی راہ دکھائی ہے۔مذہب کے نام پر عام آدمی ہمیشہ جز باتی
رہاہے۔مذہبی نمائندوں کی کہی بات اس کے لیے ہمیشہ حرف آخر تسلیم ہوئی۔ہمیشہ
اسے بلا چوں چرا کے قبول کرلیا گیا۔
اسلام آباد دھرنے کے بعد اب لاہور دھرنا بھی ختم ہوچکا۔علامہ اشرف جلالی نے
ضروری یقین دہانیوں کے بعد دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ان کا دھرنا
اسلام آباد ؎دھرنا ختم کیے جانے کے بعد بھی جاری تھا۔ان کا موقف تھاکہ جس
مقصد کے لیے دھرنا دیا گیا تھا۔وہ حاصل نہیں ہو پایا۔اسلام آباد دھرنے کی
انتظامیہ نے اپنا مشن ادھورہ چھوڑ دیا۔جب تک دھرنے کے مقاصد حاصل نہیں
کرلیے جائیں گے۔جلالی صاحب نے علامہ خادم حسین رضوی کی طرف سے دھرنا ختم
کردینے پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے لاہور دھرنا جاری رکھنے کا فیصلہ
کیا تھا۔ان کے اس فیصلے پر علامہ خادم حسین رضوی کی طرف سے کافی تنقید کی
گئی۔جس کے جواب میں جلالی صاحب نے بھی وضاحت پر مبنی کچھ تند و تیز باتیں
کیں۔یہ تماشہ شاید کچھ دن اور چلتامگر خوش قسمتی سے پنجاب حکومت اور جلالی
صاحب کے درمیان مزاکرات کا سلسلہ کامیاب رہا۔علامہ صاحب نے حکومتی وفد کی
یقین دہانیوں کے بعد دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا۔علاوہ ازیں وزیر قانون
پنجاب رانا ثنااللہ بھی قادیانت سے متعلق اپنا موقف پیش کرنے حضرت۔بارہ
ربیع الاول کے بابرکت دن کی حرمت ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے۔جلالی صاحب نے
دھرنا ختم کرنے پر آمادگی دکھائی ہے۔اگر یہ خاص دن نہ ہوتاتو شاید جلالی
صاحب کے لیے دھرنا ختم کرنے کی درخواست قبول کرنا مشکل ہوجاتا۔
مذہبی دھڑوں کی طرف سے عوامی احتجاج اور دھرنوں کی ایک لمبی تاریخ ہے۔بد
قسمتی سے یہ دھڑے اپنے مقاصد پانے میں کبھی کامیاب نہیں ہوپائے۔ستر کی
دہائی کی نظام مصطفی کے نفاذ کی تحریک ہو۔یا علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کی
قیادت میں پہلے سیاست نہیں ریاست بچاؤہو۔یا۔انقلاب مارچ وغیرہ ان میں سے
کوئی بھی تحریک کچھ کمال نہ دکھا پائی۔نظام مصطفی کے نظام کے داعی بعد میں
ضیاء الحق کے ساجھی بن گئے۔جس نظام مصطفی کے لیے بھٹو حکومت کو گھر بھجوایا
تھا۔اس کے نفاذ کا جزبہ دم توڑ گیا۔کچھ اکا دکالوگ جو ضیا ء الحق کے ساتھ
نہ چلنا چاہتے تھے۔گھروں تک محدود ہوگئے۔علامہ طاہر القادری بھی دونوں
تحریکو ں کے بعد خالی ہاتھ واپس ہوئے۔ان کی سیاست نہیں ریاست بچاؤ تحریک کے
نتیجے میں 2013 کے الیکشن ملتوی نہ ہوسکے۔دوسری تحریک جو انقلاب مارچ کے
نام پر چلائی گئی۔وہ بھی جب ختم ہوئی ملک میں ایک ذرا برابر بھی تبدیل نہ
ہوپایا تھا۔اب رضوی اور جلالی صاحب تین ہفتے تک لوگوں کو مائل کیے رکھنے کے
بعد دھرنوں کو سمیٹ گئے۔دھرنا ختم کرنے کے معاہدے میں صاف لکھا تھا کہ
علامہ رضوی صاحب وزیر قانون کے خلاف کوئی فتوی نہ دیں گے۔مذہبی دھڑوں کی
تحریکوں کی ناکامی کا ایک سبب باہمی منافرت بھی رہی ہے۔ابھی کل ہی جب علامہ
طاہر القادری اسلامی انقلاب کا درس دے رہے ہیں۔ متعد د دینی دھڑے ان کے
خلاف بیانات جاری کرہے ہیں۔ان دھڑوں سے وابستہ لوگ اس اسلامی انقلاب میں
حصے دار بننے سے عاری تھے۔اسلام آباد میں علامہ رضوی صاحب کا دھرنا بھی
مذہبی نعروں پر دیا گیا۔اس دھرنے کے خلاف قادری صاحب کی طرف منفی رائے زنی
نے بھی رنگ میں بھنگ ڈالا منہاج القران تنظیم کے ہزاروں وابستہ گان اپنے
پیرکی تعلیمات کے سبب رضوی صاحب کے جہاد کا حصہ نہ بن پائے۔اب جلالی صاحب
او ررضوی میں ہونے والی کچھ تھوڑی بہت تو تکار نے مذید بد مزگی پیداکی
ہے۔دینی دھڑوں کی یہ منافرت عام آدمی کے لیے باعث تشویش ہے۔ایک مومن کو
دنیا کے لیے کردار اور اطوار میں روڈ میپ ہونا چاہیے۔اس مومن کے مذہبی
اکابرین کو تو اس سے کہیں بڑھ کر مکمل اور مثالی ہونا چاہیے۔ایک دوسرے کو
برداشت نہ کرنے اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنے ماننے والوں سڑکوں پر لے آنے
کی دنیا دار مذہبی اکابرین کو ترک کرنا پڑے گی۔مومن کی معراج باعلم۔باعمل
اور باکردار ہونے میں ہے۔فتنوں کے خلاف اٹھ کرنے ہونا مومن کی شان ہے۔فتنے
پیدا کرنے یا انہیں ہوا دینا کسی طور مومن کی معراج نہیں ہوسکتی۔ |