ہمارے بچے جب بھی بلوغت کی پہلی سیڑھی پرپہنچتے ہیں
تومستقبل کے سہانے سپنے دیکھناشروع کردیتے ہیں۔خوشحال زندگی،اچھی ملازمت،
معقول تنخواہ، خوبصورت گھراورپھر۔۔۔نئی گاڑی ہو ، جس میں وہ اپنے حسین
وجمیل ہم سفر کے ساتھ کشادہ سڑکوں پر خوبصورت وادیوں سے محظوظ ہورہے
ہوں۔جوبچے تھوڑا بہت سنجیدہ ہوتے ہیں، وہ اپنے والدین کے سپنوں کو حقیت میں
بدلنے کے لئے دن رات محنت کرتے ہیں ۔دل لگاکرپڑھتے ہیں اوراچھے اچھے نمبروں
میں امتحانات پاس کرتے ہیں لیکن ڈگری کے حصول کے بعدانکے سہانے خواب اسی
لمحے چکناچورہوجاتے ہیں، جب وہ نوکری کی تلاش میں دردرکی ٹھوکریں کھاتے ہیں
اورایک معمولی ملازمت کاحصول انکے لئے جوئے شیرلانے سے کم نہیں ہوتا۔کچھ
نوجوان اپنے سہانے خوابوں کی تکمیل کے لئے سرمایہ داروں کے بنائے ہوئے کار
خانوں میں اپناخون پسینہ ایک کردیتے ہیں لیکن وہاں انکے سہانے خوابوں کی
تکمیل کی بجائے انہیں ذلت اوراستحصال کے سواہ کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ مستقبل کے
سہانے خواب توبہت دورکی بات ہے، یہاں وہ اپنے اوراپنے گھروالوں کے لئے
دووقت کی روٹی مشکل سے کماتے ہیں۔ اچھے تعلیم یافتہ نوجوان ایسے ایسے کام
کرنے پرمجبورہیں جوانکی تعلیم کے شایان شان نہیں ہیں اوریوں احساس محرومی
کی فضامیں پلتے بڑھتے ہمارے نوجوانوں کے بہترمستقبل کی تمام امیدیں دم
توڑتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔گذشتہ کچھ سال سے بیرون ملک جانے والے پاکستانی
نوجوانوں کی تعدادمیں بہت اضافہ ہواہے۔غربت، بے روزگاری اورمہنگائی سے تنگ
آکرہمارے نوجوان اپنے ملک کوخیربادکہتے جارہے ہیں۔ بہت ہی باصلاحیت اوراعلیٰ
تعلیم یافتہ نوجوان بجائے اپنے وطن کی خدمت کے، اپنی صلاحیتوں کودیارغیرکی
نذرکردیتے ہیں اورہماری قوم انکی خدمات حاصل کرنے سے محروم رہ جاتی ہے۔بایں
ہمہ نوجوانوں کااپنے ملک سے باہرجاکرمحنت کرنااوراپنے اورگھروالوں کی زندگی
بدلناکوئی ایسی قباحت نہیں ہے لیکن اسکے لئے قانونی طریقہ کار اورضروری
دستاویزات بنانانہایت اہم ہے۔المیہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوان غیرقانونی طریقوں
سے غیرممالک میں رہائش اختیارکرنے کے درپے ہیں،جس مقصدکے لئے وہ ایسے
ایجنٹوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں ،جوپیشہ وراورعادی مجرم ہیں اورانسانی
سمگلنگ کے گھناونے جرم کواپناذریعہ معاش سمجھتے ہیں۔حال ہی میں بلوچستان کے
علاقے تربت میں ایسے ہی پندرہ معصوم نوجوان اس وقت زندگی کی بازی ہارگئے ،جب
وہ اپنے سہانے خوابوں کی تکمیل کے لئے غیرقانونی راستوں سے یورپ جارہے تھے
اورپھرستم بالائے ستم یہ کہ وہ ایسے ایجنٹوں کے ہتھے چڑھ گئے تھے،جنہوں نے
پیسہ حاصل کرنے کی خاطرانہیں کئی نامعلوم افرادکے ذریعے مشکل اورخطرناک
راستوں سے سرحدپارکرواناتھا۔ادھرماں باپ اپنے بچوں کے بہترمستقبل کے لئے
دعائیں مانگ رہے تھے اورادھراپنے گھرسے دوربلوچستان کے ویران
اورغیرآبادپہاڑوں میں گولیوں سے چھلنی انکی نعشیں پکارپکارکرپاکستانی
نوجوانوں کوپیغام دیتے تھے کہ یورپ کے سہانے خواب دیکھناچھوڑدو، اپنے وطن
کو جنت بناؤاوریہاں رہ کر اپنے مستقبل کے لئے جدوجہد کرو۔یہ صرف ایک وقوعہ
نہیں بلکہ ایسے بے شمارواقعات وطن عزیز کی سرحدوں پر وطن عزیزکے فرزندوں کے
ساتھ رونماہوتے ہیں ، جو غیرقانونی طریقوں سے ملک سے باہرجاتے ہیں
اوربلوچستان اوریران کی سرحدوں پر وہ بے دردی سے نامعلوم دشمن کے ہاتھوں
قتل ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح کے بے شمارواقعات ترکی میں پاکستانی نوجوانوں کے
ساتھ پیش آئے۔بہت سے پاکستانی نوجوانوں کو اغواکرکے تشدد اورظلم وستم
کانشانہ بنایاگیااوربہت سے نوجوان جان کی بازی ہارگئے۔
آخرکب تک ہمارے نوجوان یورپ کے سہانے خواب دیکھتے رہیں گے اوراپنی اس حسرت
کی تکمیل کے لئے غیرقانونی طریقوں کاسہارالیں گے۔ہمارے لئے ایک طرف یہ
المیہ ہے کہ ہماراقیمتی سرمایہ ، ہمارے نوجوان اپنی صلاحیتوں کو دیارغیرمیں
ضائع کرنے کے لئے اپنی جان مال کی بازی لگاتے ہیں جبکہ دوسری طرف ہمارے
ارباب اختیاراپنے روزمرہ معمولات سے لیکر، علاج، کاروبار، تعلیم ، مذہبی
تہوارمنانے اورسیروسیاحت کے لئے دھڑادھڑیورپ اورامریکہ کے سفرکرتے رہتے ہیں۔
ہم بھی خواب دیکھتے ہیں، لیکن یورپ اورامریکہ کے نہیں بلکہ ایک ایسے
پاکستان کے، جس کے ہسپتالوں میں وزیراعظم اوراسکے اہل وعیال کاعلاج ہوسکے،
جس کے تعلیمی اداروں میں ہمارے ارباب اختیارکے بچے پڑھ سکے ۔جہاں ہمارے
صاحب حیثیت لوگ سرمایہ کاری کرسکے اورجس کے بینکوں میں ہمارے لیڈراپنی رقوم
رکھ سکے۔ایک ایساملک، جہاں حکمران اپنے ملک کی خوبصورت وادیوں سے محظوظ ہوں
اورانہیں سیروتفریح کے لئے بیرون ملک جانے کی ضرورت نہ ہو۔ہاں۔۔۔۔ہم ایک
ایسے پاکستان کابھی خواب دیکھتے ہیں ، جہاں غریب ، تعلیم یافتہ اورباصلاحیت
نوجوانوں کو روزگارملے اورجنہیں اپنی صلاحیتوں کالوہامنوانے کے لئے بیرون
ملک جانانہ پڑے۔ |