آج اگر میں اپنے بچپن میں جھانکتا ہوں تو اسکول کے
علاوہ دو ہی طرح کی سرگرمی یاد آتی ہیں ایک جب میں اپنے والد صاحب کے ساتھ
گھومنے جاتا تھا اور دوسرا گھر میں کئی شمارے آتے تھے جس میں ایک نونہال
بھی تھا ، جب بھی اس کا نیا رسالہ آتا تھا گویا میرے لیئے عید آجاتی تھی
لیکن اس عید کی خوشی منانے سے پہلے ہم بہن بھائیوں میں ایک جنگ ہوا کرتی
تھی کہ پہلے کون پڑھے گا ، شاید اُنہیں بھی میری جیسی خوشی ہوتی تھی یا
نہیں، یہ مجھے نہیں معلوم۔ لیکن پھر یہ رسالہ گھر آنا بند ہوگیا ، اس کی
وجہ یہ تھی کہ امتحان کے دنوں میں بھی ہم لوگ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اسی کو
تھامے بیٹھے دِکھائی دیا کرتے تھے شاید اسی لیئے والد صاحب نے بند کروادیا۔
اس کے باوجود مجھے آج بھی یاد ہے میں اپنی جیب خرچ سے روپے بچاکر چھُپ کر
لاکر پڑھ لیا کرتا تھا اور جب بہن بھائی اپنا اپنا ہوم ورک مکمل کرچکے ہوتے
تو میں ایک ایک کرکے سب کو پڑھادیا کرتا ۔ آہستہ آہستہ سب کی دلچسپیاں
بدلنے لگیں ، لیکن میرا یہ دستور تھوڑی دیر سویر کے باوجود میٹرک تک یہی
رہا ۔آج بھی جب کبھی گھر کے کسی حصّے سے کوئی نونہال کا سابقہ رسالہ آنکلتا
ہے تو راقم اُس کا دوبارہ مطالعہ کرتا ہے۔
دس دسمبر بروز اتوار ایسے ہی فیسبُک کی وال دیکھ رہا تھا کہ اچانک توجہ ایک
جانی پہچانی تصویر پر جاپڑی، نوٹ میں محترم مسعود احمد برکاتی صاحب کی
انتقال کی خبر تھی، انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم میرے سب سے محبوب رسالے
ـ’نونہال‘ کے چیف ایڈیٹر اور چہار پیڑھی کے اُستاد رہ چُکے ہیں۔ چار نسلوں
کے روحانی باپ ، پینسٹھ برس ہماری اخلاقی تربیت کرتے رہے اور اچانک ہی ہم
سب کو یتیم کرکے دار فانی سے کُوچ کرگئے ۔
کچھ ہی عرصہ قبل جناب اشتیاق احمد صاحب مرحوم ہوگئے جو کہ مشہور رسالہ
’بچوں کا اسلام‘ کے ایڈیٹر تھے اور بہت سے جاسوسی ناول کے رائٹر تھے ، ہم
سچ میں یتیم ہوتے جارہے ہیں کیونکہ یہ رسائل بچوں کی ذہنی تربیت کیا کرتے
تھے اور کہانی کے انداز میں صحیح غلط کی پہچان کرواتے تھے۔ آج کے دور کے
حالات دیکھے جائیں تو ڈر ہی رہتا ہے کہ یہ بچے بڑے ہوکر کیاکریں گے جو ہر
وقت اسمارٹ فون میں ہی جھُکے رہتے ہیں، لیکن ایک اُمید یہ بھی ہے کہ شاید
کوئی اُستاد ابھی آن موجود ہو جو انہیں اسمارٹ فونز کے ذریعے ہی اچھائی
بُرائی کا فرق بتادے۔ اور ایسا مُمکن ہے کیونکہ بذریعہ یوٹیوب اب اس امر کی
ضرورت ہے کہ وہی کہانی کا سلسلہ ویڈیوز اور کارٹون کی شکل میں دوبارہ جاری
کیاجائے تاکہ وہ سلسلہ جو شہید حکیم سعید صاحب نے شروع کیا تھا وہ آئندہ
وقتوں میں بھی موجود ہو۔ |