۱۸۵۷ء کا انقلاب ہماری قومی تاریخ کا ایک حصہّ ہے۔
جس کو نظر انداز کرکے نہ تو ہندوستان کی تاریخ مرتّب کی جا سکتی ہے اور نہ
ہی اُردو ادب کو سمجھا یا پرکھا جا سکتا ہے۔ اس نے ہماری تاریخ کو ہی نہیں
بلکہ ہمارے تاریخی ، سماجی اور ادبی شعور کو بھی بدل کر رکھ دیا۔ اس کے بعد
ہم نہ صرف نئے عہد میں داخل ہوئے بلکہ خود کو اور اوروں کو نئے زاوئے سے
دیکھنے لگے۔ یہ نئے زاوئے ہم نے خود تخلیق نہیں کیے تھے بلکہ نئی تاریخ نے
ہمیں تھما دیے تھے۔ یہ عمل ایک ایسے لمحے میں ہوا تھا کہ ہم اس کو انکار
نہیں کر سکتے تھے۔
۱۸۵۷ء کی جنگ غیر منظم سہی لیکن تھی عوامی جنگ۔ جو حصولِ آزادی کے لیے لڑی
گئی۔ وسیع مفہوم میں یہ قومی تحریک ہی تھی جس نے ہندوستانی عوام کو نئی
گرمی، نیا ولولہ، نیا جوش و خروش اور نئی روشنی عطا کی۔ عوام کے دلوں میں
حبّ الوطنی ، وطن دوستی اور قومی احساس کا جذبہ پیدا کیا۔ وطنیت کی یہ
تحریک جذباتی اور انفرادی سرچشموں سے پھوٹی تھی۔
اس پہلی جنگِ آزادی کے قائد بہادر شاہ ظفر کا رنگ و آہنگ یکسر منفرد ہے اور
ان کا شعری پس منظر نہایت واضح اور وسیع تر ہے کیوں کہ وہ شاعری برائے
شاعری نہیں کرتے بلکہ ان کے ذاتی غم اور ذات کی بھی عکاّسی کرتی ہے اور ان
کے عہد کے سیاسی اور سماجی پس منظر پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔ بہادر شاہ ظفر
کی شاعری کا امتیازی رنگ حُزن و ملال ہے۔ انھوں نے اپنے سوز و گداز کو
اشعار کے پیکر میں اس خوبصورتی سے ڈھالا ہے کہ ان کے اشعار ضرب المثل کا
درجہ اختیار کر گئے ہیں۔ اس سلسلے میں چند اشعار پیش کیے جا سکتے ہیں:
گرمئی دل سے ہے یہ سینا و پہلو جلتے
کہ نکلتے مری آنکھ سے آنسو جلتے
شمع جلتی ہے پر اس طرح کہاں جلتی ہے
ہڈّی ہڈّی مری اے سوزِ نہاں جلتی ہے
یہ رعایا ہند تبہ ہوئی کہو کیا کیا اِن پہ جفا ہوئی
جسے دیکھا حاکمِ وقت نے کہا یہ بھی قابلِ دار ہے
مجھے آنا ملے کیوں کر تری محفل میں جانانہ
مری صورت فقیرانہ ترا دربار شاہانہ
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آ سکے میں وہ ایک مشتِ غبار ہوں
مرا رنگ روپ بگڑ گیا مرا یار مجھ سے بچھڑ گیا
جو چمن خزاں سے اُجڑ گیا میں اُسی کی فصلِ بہارہوں
نہ تو میں کسی کا حبیب ہوں نہ تو میں کسی کا رقیب ہوں
جو بگڑ گیا وہ نصیب ہوں جو اُجڑ گیا وہ دیار ہوں
پئے فاتحہ کوئی آئے کیوں کوئی چار پھول چڑھائے کیوں
کوئی آ کے شمع جلائے کیوں کہ میں بے کسی کا مزار ہوں
یا یوں کہتے ہیں کہ :
نہ مر ا مونس کوئی ہے اور نہ کوئی غم گسار
غم مرا غم خوار ہے میں غم کے غم خواروں میں ہوں
ایک جگہ یوں کہا ہے کہ :
ُُٗ پسِ مرگ میرے مزار پر جو دیا کسی نے جلا دیا
اسے آہ دامنِ باد نے سرِ شام سے ہی بجھا دیا
بہادر شاہ ظفر کی شاعرانہ عظمت یہ ہے کہ ان کے کلام میں سادگی ، روانی، بے
تکلّفی ، فصاحت ، اور محاورہ بندی ہے۔ ان کا غزلیہ رنگ و آہنگ اپنے عہد کے
شعرا سے مختلف ہے ۔ بہادر شاہ ظفر اپنا ایک خاص رنگ ا ور خاص آہنگ رکھتے
تھے۔ ان کے رنگ و آہنگ میں بہت سی فنّی خوبیاں پائی جاتی ہیں اور ان کے
کلام کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ یہ کلام ان کی شخصیت کا آئنہ دار ہے اور
بڑی حد تک اُن کی ذاتی زندگی سے ہم آہنگ بھی ہے۔ اُن کی غزلیہ شاعری اپنے
عہد کی بھرپور ترجمانی کرتی ہے۔ اس ضمن میں چند اشعار پیش ہیں :
جن گلین میں پہلے دیکھیں، لوگن کی رنگ رلیاں تھیں
پھر دیکھا تو اُن لوگن بنِ ، سونی پڑی وہ گلیاں تھیں
لگتا نہیں ہے جی مرا اُجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالمِ ناپائدار میں
عمرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
کہ دو اِن حسرتوں سے کہیں اور جابسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دلِ داغدار میں
مری آنکھ بند تھی جب تلک وہ نظر میں نورِ جمال تھا
کھُلی آنکھ تو نہ خبر رہی کہ وہ خواب تھا کہ خیال تھا
مرے دل میں تھا کہوں گا میں جو دل پہ رنج و ملال ہے
وہ جب آ گیا مرے سامنے تو رنج تھا نہ ملال تھا
پڑے ہیں سوزِ محبّت سے دل پہ جتنے داغ
ستارے اِتنے نہ ہوویں گے آسماں کے لیے
بہادر شاہ ظفرکی شاعری حبّ الوطنی اور وطن دوستی کے جذبہ سے سرشار ہے۔
رنگون کی جیل میں رہ کر بھی انھوں نے انگریزوں کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ وہ
کہتے ہیں :
ظفر یہ بارِ عشق اُٹھے نہ اُٹھے ہم ضعیفوں سے
مگر اک بار اپنی تاب و طاقت آزماتے ہیں
رنگون کی جیل میں ایک پادری نے انھیں چڑھاتے ہوئے کہا تھا کہ :
دم دمِ میں دم نہیں ، اب خیر مانگو جان کی
ائے ظفر بس ہو چکی ، شمشیر ہندوستان کی
اس کے جواب میں بہادر شاہ ظفر نے کہا :
ہندیو ں میں بو رہے گی جب تلک ایمان کی
تخت لندن پر چلے گی شمشیر ہندوستان کی
اس کے بعد پھر مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر نے فرمایا :
نہ پائے گا کوئی ہم کو بے رنگ نقشِ قدم
ہم ایسا خاک میں اپنا نشاں ملا دیں گے
مختصر یہ کہ بہادر شاہ ظفر کے غزلیہ آئنہ خانے میں سوز و گداز ، حسرت و یاس
، سلاست و روانی ، فصاحت ، معاملہ بندی اور محاورہ بندی سبھی کچھ موجود ہیں
۔ یہی ان کے کلام کی روح اور فنّی لطافت بھی ہے۔ جو اُن کے ہم عصر شعرا سے
جداگانہ انفرادیت بھی عطا کرتی ہے۔ بہادر شاہ ظفر کی شاعری میں الہامی رنگ
بھی نظر آتا ہے۔ وہ کہتے ہیں :
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یارمیں
٭٭٭٭٭
ڈاکٹر اجے مالوی
۱۲۷۸؍۱ مالوی نگر،
الہ آباد (یو ۔ پی)ؓٓ |