قرضوں کے سائیڈافیکٹ

 شایدعوام کو یادہوکہ دھرنوں کے دوران عمران خان نے کہا تھا میں خودکشی کرلوں گا لیکن IMFکے پاس نہیں جاؤں گا پھر حکومت میں آنے کے بعدانہوں نے یوٹرن لے لیا اور کڑی شرائط کے باوجود IMF سے قرضہ لینے کا فیصلہ کرلیا جس کے نتیجہ میں عوام پر آٹھ سوارب کے نئے ٹیکسوں کا بوجھ اور بجلی، گیس پر سبسڈی ختم کرنے اور نرخوں میں اضافے کی شرائط پیش کردی گئیں۔ موجودہ حکومت نے یہ سب کچھ مان لیا اس طرح پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ کے درمیان تین سالہ پروگرام پر معاہدہ ہوگیا اب پاکستان IMF سے ساڑھے چھ ارب ڈالر سے زائد قرض حاصل کرے گا کہاجاتاہے قرض عزت،غیرت اورآزادی کا دشمن ہوتاہے اس کے ساتھ ساتھ قرضوں کے اوربھی بہت سے سائیڈ افیکٹ ہیں آپ ذرا ذہن کر زوردے کر سوچئے فی الحال ہم وطنوں کو ڈرانے کیلئے یہی بات کافی ہے کہ یکم جولائی سے 800 ارب سے زائد کے ٹیکس لگانے کا عمل شروع ہوگیا ہے مطلب بجلی اور گیس مہنگی ہوگئی اور مزید مہنگی کرنے کی تیاریاں ساتھ ساتھ جاری ہیں ۔ ایک اور خاص بات یہ ہے کہ ترقیاتی بجٹ گزشتہ سال کی سطح پر منجمد کیا جائے گا، خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری ہوگی، ایکسچینج ریٹ کو مراحلہ وار فلاوٹینگ کی طرف لیجایا جائے گا جس سے بجٹ خسارہ کم ہونے میں مددملے گی اس کے نتیجے میں روپے کی قدر مزید گرسکتی ہے اور مزیدمہنگائی کا طوفان آسکتا ہے جس ملک کے عوام پہلے ہی مہنگائی سے سخت پریشان ہیں حکومت نے قرض حاصل کرنے کیلئے IMF کی سب شرائط تسلیم کرلی ہیں۔اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حکومت نے سب کچھ IMF کے ہاتھ میں دے دیا ہے جبکہ پی ٹی آئی رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ موجودہ حالات سابق حکمرانوں کی لوٹ گھسوٹ کا نتیجہ ہے عمران خان تو ملکی معیشت ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس IMF کا نام سن سن کرپاکستانی قوم کے کان پک گئے ہیں یہ ہے کیا؟ ہم میں سے بیشتر پاکستانیوں نے محض IMF کانام ہی سناہے اس کے کام اور طریقہ ٔ کار بارے نہیں جانتے سب کے گوش گذار ہم کئے دیتے ہیں کہ IMF آخرہے کس بلا کانام تو دل و دماغ کے دریچے کھول کر سنئے اور دیدے گھما گھما کر پڑھئے کہ IMF دراصل بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ:IMF) ایک عالمی مالیاتی ادارہ ہے جو ملکی معیشتوں اور انکی باہمی کارکردگی بالخصوص زر مبادلہ، بیرونی قرضہ جات فراہم کرتا ہے جس کی زیادہ ضرورت تیسری دنیا کے ملکوں یا ترقی پدیرممالک کو اکثر پڑتی رہتی ہے ان ممالک کی معاشی فلاح اور مالی خسارے سے نبٹنے کے لئے قرضے اور تیکنیکی معاونت فراہم کی جاتی ہے ایسا عالمی بیک بنانے کی ضرورت اس وقت محسوس کی گئی جب دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے بہت سے یورپی ممالک عدم توازن کا شکارہوگئے یہ عدم توازن درحقیقت انکے ملکی بجٹ کا خسارہ تھا پھراس کا دائرہ ٔ کاربڑھا دیا گیا اب آپ یوں سمجھ لیں ایسے ممالک کی مدد کرنے کے لئے یہ ادارہ وجود میں لایا۔ گیا جن ملکوں کے بجٹ کا خسارا بڑھتا چلاجاتاہے IMF جنگ عظیم دوم کے بعد بریٹن وڈز کے معاہدہ کے تحت بین الاقوامی تجارت اور مالی لین دین کی ثالثی کے لئے دسمبر 1945 میں قائم ہوا۔اس کا مرکزی دفتر امریکہ کے دار الحکومت واشنگٹن میں ہے۔ اس وقت دنیا کے 185 ممالک اس کے رکن ہیں جن میں شمالی کوریا، کیوبا اور کچھ دوسرے چھوٹے ممالک کے علاوہ بیشتر ممالک اس کے ارکان ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ پر بڑی طاقتوں کا مکمل ہولڈہے جس کی وجہ اس کے فیصلوں کے لئے ووٹ ڈالنے کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔ یہ ادارہ تقریباً پوری دنیا کے ان ممالک کو قرضہ دیتا ہے جو ان ممالک کے بیرونی قرضہ میں شامل ہوتے ہیں۔ ان قرضوں کے ساتھ غریب ممالک کے اوپر کچھ شرائط بھی لگائی جاتی ہیں جن کے بارے میں ناقدین کا خیال ہے کہ یہ شرائط اکثر اوقات مقروض ملک کے معاشی حالت کو بہتر بنانے کی بجائے اسے بگاڑتے ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ جیسے بین الاقوامی اداروں کے ڈھانچے کو بدلنے کی ضرورت وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔IMF سے جب کوئی ملک قرض لیناچاہتا ہے تو سب سے پہلے اسے ایک باضابطہ تحریری درخواست دینا پڑتی ہے۔عام طور پر ایسا اس ملک کے وزیراخزانہ ذاتی طور پر IMF کے دفتر میں جا کر کرتے ہیں۔اس درخواست میں اس قرض کے حصول کی وجہ اور اپنا ماضی کا ریکارڈ بتایا جاتا ہے تاکہ ثابت کیا جائے کہ اس ملک کے لیے یہ قرض لینا کتنا ضروری ہے اور یہ کہ ماضی میں اس ملک نے قرض لے کر اس کا درست استعمال بھی کیا اور قرض واپس بھی کیا۔آئی ایم ایف اپنے اجلاس میں اس درخواست کا سرسری جائزہ لے کر قرض دینے کی اصولی منظوری دیتا ہے۔ IMF صرف ان ملکوں کو قرض جاری کرتا ہے جو معاشی بحران کا شکار ہوں۔ آئی ایم ایف کی مشن سٹیٹ منٹ کہتی ہے معاشی بحران سے دوچار ممالک میں معاشی استحکام لانے کے لئے IMF اپنی معاشی پالیسیوں پرمشتمل کڑی شرائط نافذکرتاہے جسے قرض لینے والے ممالک با امرِ مجبوری تسلیم کرنے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں ۔جب آئی ایم ایف یہ طے کرتا ہے کہ قرض لینے والے ملک کو اپنے معاشی بحران سے نمٹنے کے لئے بعض اقدامات کرنے چاہییں تو وہ ان اقدامات کو یقینی بنانے کے لئے حکومت سے تحریری یقین دہانی لیتا ہے۔ IMF کی شرائط اس معاہدے کا حصہ ہوتی ہیں جس کے تحت قرض جاری کیا جاتا ہے۔ چونکہ قرض لینے والے ممالک پہلے ہی تنگ دست ہوتے ہیں ان کے پاس زیادہ وسائل بھی نہیں ہوتے IMF ہرصورت اپنے قرضوں کی واپسی چاہتاہے اس لئے IMF یوٹیلٹی بلز اور استعمال کی ضروری اشیائے پر مزید ٹیکسزلگانے کا مشورہ دیتاہے جس سے مہنگائی مزیذبڑھ جاتی ہے پاکستان جیسے ملک کو اس اندازسے نوچا اورلوٹا گیا کہ ہم قرضوں کا سود اتارنے کیلئے مزید قرض لینے پر مجبورہیں اس وقت پاکستان کی آمدن30000ارب کے لگ بھگ ہے ہماری حکومت غیرملکی قرضوں کا سود اداکرنے کیلئے کل آمدن کانصف15000 عالمی مالیاتی اداروں کو اداکررہی ہے جس سے ملکی معیشت کیحالت دن بہ دن بترہوتی چلی جارہی ہے اقتصادی ماہرین آئی ایم ایف کو تنگ نظر معاشی پالیسی کا حامل قرار دیتے ہیں کیونکہ اس کے پاس دنیا بھر کے ملکوں کے معاشی بحرانوں کو حل کرنے کا ایک ہی فارمولا ہے۔ اور وہ فارمولا ہمیشہ ایک سا رہتا ہے آئی ایم ایف حکام ہمیشہ برآمدات اورشرحِ سود بڑھانے کامشورہ دیتے ہیں وہ سبسڈیز ختم کرنے، مقامی کرنسی کی قدر کم کرنے اور بجٹ خسارہ کم کرنے کے اقدامات تجویز کرتا ہے۔ یہ وہ بنیادی ڈھانچہ ہے جس کے گرد آئی ایم ایف کی شرائط گھومتی ہیں اور پاکستان کے لئے بھی اس نوعیت کی کڑی شرائط کا تابانا بناجاچکاہے۔ اس وقت پاکستان جس حد تک وہ قرض لے سکتا ہے وہ دو سے تین ارب ڈالر تک ہے۔ لیکن کوئی بھی ملک اپنے کوٹے سے زیادہ قرض بھی لے سکتا ہے۔پاکستان کے پاس اپنے کوٹے سے چار سو فیصد سے زائد قرض لینے کی سہولت موجود ہے۔لیکن کوٹے سے زیادہ قرض لینے میں مسئلہ یہ ہے کہ جوں جوں قرض کی مقدار کوٹے سے بڑھتی چلی جاتی ہے، IMF کی شرائط پر عمل کرنا بھی اتنا ہی ٰضروری ہوتا چلا جاتا ہے۔مثلاً اگر پاکستان اپنے کوٹے کے مطابق دو سے تین ارب ڈالر لیتا ہے تو وہ ان شرائط کو بہت حد تک نظر انداز کر سکتا ہے لیکن اگر اپنے کوٹے کی آخری حد سے بھی زائد قرض 6ارب ڈالر لیتا ہے تو ان کے علاوہ بعض نئی شرائط بھی عائد ہوں گی جن پر سو فیصد عمل بھی ضروری ہو جائے گا اورپاکستان اسی آخری حدکی طرف جاچکاہے اسی لئے بجلی اور گیس کی قیمتیں پھربڑھانے کا عندیہ دیاجاچکاہے جس کے باعث ملک میں معاشی حالات ابتر ہوتے جا رہے ہیں غربت، مہنگائی،بیروزگاری،سٹریٹ کرائم بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں دراصل قرضوں کے یہی سائیڈافیکٹ ہیں اور پاکستان میں مہنگائی کا طوفان برپا ہو گیا ہے اس طوفان میں مزید شدت آنے کا قوی امکان ہے۔ دنیا میں قوموں پر مشکل وقت آ تے رہتے ہیں لیکن قومیں مل کر بحرانوں سے ختم کرتی ہیں ماضی میں کسی حکمران نے قرضے اتارنے کی کوئی حکمت ِ عملی وضح نہیں کی میاں نوازشریف نے اپنے دوسرے دورِ حکومت میں قرض اتارو،ملک سنوارو نامی سکیم لانچ کی تھی جس میں پاکستانیوں نے جوش وجذبہ سے اربوں روپے عطیات دئیے آج تک معلوم نہ ہوسکا کہ کتنی مالیت کے عطیات اکھٹے ہوئے اور ان کا کیا مصرف تھا؟۔وزیر اعظم عمران خان ملک کو قرضوں سے نجات دلانا چاہتے ہیں لیکن کتنی عجیب بات ہے انہوں نے IMF کی کڑی شرائط کو تسلیم کرتے ہوئے مزید قرضہ لے لیا ہے بہرحال ایک بات طے ہے جب تک پاکستان کو قرضوں سے نجات نہیں ملتی غربت، مہنگائی،بیروزگاری،سٹریٹ کرائم اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ممکن نہیں سب کو ازمالیا چلئے عمران خان کو بھی ازمانے میں کیا ہرج ہے شایدان کی کوششوں سے ہمیں قرض کے سائیڈافیکٹ سے نجات مل جائے۔
 

Sarwar Siddiqui
About the Author: Sarwar Siddiqui Read More Articles by Sarwar Siddiqui: 462 Articles with 337238 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.