ابھی حال ہی میں تیسرے انٹرنیشنل ڈیموکریسی فورم کا انعقاد
بیجنگ میں کیا گیا ، جس میں 70 سے زائد ممالک اور خطوں کے تقریباً 300 عہدیداروں
اور ماہرین نے اس بات پر تبادلہ خیال کیا کہ جمہوریت کو جدید ڈیجیٹل دور کی ضروریات
اور گلوبل ساؤتھ کی مضبوطی کے مطابق کیسے ہونا چاہئے۔
وسیع تناظر میں آج، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی چین کی جمہوری گورننس کے ساتھ گہرائی سے جڑی
ہوئی ہے۔ اس وقت ووٹنگ کے دوران ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا استعمال، حکومتی پالیسیوں کو
سمجھنے، مشاورت میں حصہ لینے اور حکومتی سرگرمیوں کی نگرانی جیسے عمل کو آسان بنا
رہا ہے.چین کے سرکاری انتخابی طریقہ کار میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا انضمام ووٹر
رجسٹریشن، امیدواروں کی معلومات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ووٹنگ اور گنتی کے عمل جیسے
کاموں کو آسان بنارہا ہے۔
یہ انضمام حکومتی اداروں، رائے دہندگان اور امیدواروں کے درمیان تعامل کو بھی
بڑھاتا ہے، حتمی طور پر اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ جمہوری انتخابات عوام کی
ضروریات کے مطابق زیادہ جوابدہ ہوں۔
مزید برآں، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی حکومت کو عوامی تشویش کے مسائل کو حل کرنے کے لئے
کاروباری اداروں، ماہرین اور سول مندوبین کے درمیان آن لائن تبادلہ خیال کا اہتمام
کرنے کے قابل بنا رہی ہے، جس سے مشاورت زیادہ موثر ہوتی جا رہی ہے.ڈیجیٹل ٹیک فیصلہ
سازی اور انتظام کے لئے چینلز کو بھی وسعت دیتی ہے۔
لوگ حکومت کی جانب سے شروع کیے گئے مختلف آن لائن پلیٹ فارمز جیسے ڈیجیٹل رائے عامہ
کے چینلز اور آن لائن سروے کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کرسکتے ہیں اور مشاورت میں
مشغول ہوسکتے ہیں۔ نتیجتاً ، سوشل گورننس کے لئے فیڈ بیک میکانزم نے درجہ بندی کی
سطحوں کو کم کردیا ہے ، جس سے ردعمل اور کارکردگی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
یہاں اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا اثر محض کارکردگی
کے فوائد سے کہیں زیادہ ہے. یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور آن لائن رپورٹنگ سسٹم کی
بدولت سرکاری کارروائیوں میں شفافیت اور احتساب کو فروغ دے رہی ہے۔ عوامی جانچ
پڑتال کی نگرانی میں انتظامی عمل کا معائنہ بھی شامل ہے ، جو اس بات کو یقینی بناتا
ہے کہ سرکاری سرگرمیاں اخلاقی معیارات پر مکمل عمل پیرا ہوں اور عوام کو جوابدہ
ہوں۔
یوں چین میں ، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی صرف ایک آلہ نہیں ہے۔ یہ ترقی کے لئے ایک محرک ہے
جو شہریوں کو جمہوری عمل کو تشکیل دینے کے لئے بااختیار بناتا ہے. جدید پلیٹ فارمز
اور شفاف حکمرانی کے طریقوں نے لوگوں کے لئے اپنے جمہوری حقوق کو براہ راست استعمال
کرنے کے لئے زیادہ آسان اور موثر بنا دیا ہے۔
ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے ہٹ کر اگر تیسرے انٹرنیشنل ڈیموکریسی فورم کی مزید بات کی جائے
تو فورم کے شرکاء نے جہاں تکنیکی ترقی کی وکالت کی وہاں یہ بھی واضح کیا کہ کوئی
ایک طرز جمہوریت یا جمہوری ماڈل واحد انتخاب نہیں ہونا چاہئے۔مغربی ریاستوں کو ایسی
سیاسی شکلوں کو قبول کرنا چاہیے جو ان کی اپنی سیاسی شکلوں سے مختلف ہیں۔ساتھ ساتھ
یہ ضروری ہے کہ دنیا کو ایک ایسی کمیونٹی کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے جس کی انسانیت
کے لئے مشترکہ تقدیر ہو۔
اس ضمن میں چین کی جانب سے تجویز کردہ بین الاقوامی اقدامات بشمول بیلٹ اینڈ روڈ
انیشی ایٹو، گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو، گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو اور گلوبل
سولائزیشن انیشی ایٹو مسابقت اور بالادستی کے نقطہ نظر سے یکسر جداگانہ نقطہ نظر
فراہم کرتے ہیں اور عالمی چیلنجز کا چینی دانش کے تحت موئثر حل پیش کرتے ہیں۔
ماہرین نے یہ بھی نشاندہی کی کہ نئی پیداواری قوتوں کا عروج ہر جگہ اعلیٰ معیار کی
ترقی کی ترغیب دے رہا ہے اور جامع گلوبلائزیشن کو فروغ دے رہا ہے۔ فورم کا اختتام
چین کے ڈیموکریٹک پریکٹس اینڈ ماڈرنائزیشن ڈیولپمنٹ 2023 پر گلوبل سروے رپورٹ کے
اجراء کے ساتھ ہوا۔اکیڈمی آف کنٹینپرری چائنا اینڈ ورلڈ اسٹڈیز نے بتایا کہ انسانیت
کی مشترکہ اقدار جمہوریت کی کشش میں اضافہ کرتی ہیں۔
مختلف ممالک کے عہدیداروں اور ماہرین نے امید ظاہر کی کہ یہ انٹرنیشنل ڈیموکریسی
فورم ایک ایسے پلیٹ فارم کے طور پر کام کرے گا جس میں زیادہ سے زیادہ آوازیں سنی جا
سکیں گی، اور لوگ اپنی ترقیاتی ضروریات کے مطابق جمہوریت کی پیروی کرسکیں گے۔
|