اس دنیا میں بہت سے خوش قسمت لوگ گزرے ہیں جنہوں نے بہت سی کامیابیاں حاصل کیں۔
لیکن آج ہم جن دو لوگوں کی بات کرنے جا رہے ہیں وہ خوش قسمت ہونے کے ساتھ ساتھ خدا کے نیک بندوں میں بھی شمار ہوتے ہیں۔
بلاشبہ خدا تعالیٰ کی بارگار میں حاضری دینے اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے والے لوگ ہی حقیقت میں خوش نصیب ہیں۔
آیئے جانتے ہیں کہ وہ 2 خوش نصیب افرادکون ہیں جنہوں نے خانہ کعبہ کی بہترین انداز میں خدمت کی۔
1- اکیلے حج کرنے والا پہلا شخص
ایک خواب جوسچا ہوگیا، کعبہ شریف کا بالکل اکیلے طواف کیا بیت کا در اب بھی قسمت والوں کے لیے کھلا ہے؟ کورونا وبا کے دنوں میں گزشتہ برس بیت اللہ شریف میں عازمین کے عمرہ کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔اس کے علاوہ حج کرنے کی اجازت بھی صرف چند ہزار لوگوں کو دی گئی تھی جو سعودی عرب کے ہی رہائشی تھے۔
بلاشبہ اگر کسی کام میں خدا کی رضا شامل نہ ہو تو پوری انسانیت ایک کیوں نہ ہوجائے اگر خدا نہ چاہے تو کام کبھی پورا نہیں ہوسکتا ہے۔ وبا کے باعث کعبتہ اللہ کے دروازے ہر خاص و عام شخص کے لیے بند تھے۔ مگر ایک ایسا شخص تھا جو اکیلا خانہ کعبہ کا طواف کر رہا تھا۔ یہ ایک ایسے انسان کی کہانی ہے جو آج سے 20 سال قبل اللہ کے گھر کا تنہا طواف کرنے کا خواب دیکھتا ہے، اس کا یہ خواب کیسے پورا ہوا؟
اس واقعے کی تاریخ یہ ہے کہ ایک مرتبہ مذکورہ شخص 20 سال پہلے حج کے لیے جاتا ہے ،اور منی میں مسجد کہف میں اس کی آنکھ لگ جاتی ہے اور وہ سوجاتا ہے۔ سونے کے دوران خواب دیکھتا ہے کہ حرم شریم میں وہ اکیلا طواف کر رہا ہے۔ پھر وہ سوچتا ہے کہ اس خواب کی تعبیر معلوم کی جائے۔ خواب کی تعبیر معلوم کرنے کے لیے وہ شیخ محمد آل رومی کے پاس پہنچتا ہے اور اپنے خواب کا احوال سناتا ہے۔ شیخ آل رومی خواب کی تعبر بتاتے ہیں کہ وہ ایک دن بیت اللہ کا اکیلا طواف کرے گا۔ 20 سال گزر جانے کے کورونا کی وجہ سے اس کے خواب کی تعبیر پوری ہوئی اور اس نے تنہا کعبہ شریف کا طواف کیا۔
2- 42 سال تک خانہ کعبہ اور مسجد نبوی ﷺ میں تبرکات اکٹھے کرنے پاکستانی
یہ بھی ایک خوش قسمت شخص ہیں جن کا تعلق پاکستان کے شہر گوجرانوالہ سے ہے۔انہوں نے 42 سال تک خانہ کعبہ اور مسجد نبوی ﷺ میں تبرکات اکٹھے کیے مسجد نبوی ﷺ کے ٹیلی فون، کعبہ کا ستون، کیلیں، چھت کے ٹکڑوں سمیت ہزاروں مقدس اشیا انہوں نے اکٹھا کیں مگر کیسے؟
مقدس اشیاء اکٹھا کرنے والے محمد اسحاق ڈار نے اپنے پاس موجود سن 1990 میں رنگ کرنے والے استعمال شدہ برش بھی موجود ہیں جن سے تنبد خضریٰ پر رنگ کیا گیا تھا۔
محمد اسحاق کے پاس عثمانی دور کا ایک رسہ بھی موجود ہے جو گنبد خضریٰ پر لٹکایا گیا تھا۔ ان رسوں کو پکڑ کر گنبد خضریٰ پر چڑھ کر رنگ کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے قیمتی تبرکات میں گنبد خضریٰ سے نکلا ہوا رنگ کا ٹکڑا بھی ایک شیلف میں سنبھال کر رکھا ہے۔
محمد اسحاق کے پاس قمیتی تبرکات میں پینٹ کی بالٹی، مزدورں کے دستانے، ٹوپیاں، تسبیح، گنبد خضریٰ کی پکی اور کچی اینٹ اور بہت کچھ موجود ہے۔ یہاں تک مسجد نبوی میں سنہ 1997 میں مسجد نبوی کے دفاتر میں استعمال ہونے والے ٹیلی فون بھی ان کے پاس موجود ہیں۔
یہ ہیں وہ دو خوش قسمت شخص جو خدا کے نیک بندوں میں شامل ہیں۔