کسی کے لئے تفریح کا زریعہ اور کسی کے لئے پیسے کمانے کا۔۔۔ ٹک ٹاکرز اپنے فائدے کے لئے معاشرے کو کس طرح خراب کررہے ہیں؟

image

سوشل میڈیا جسے دنیا بھر میں معلومات اور جذبات کے اظہار کا بہترین زریعہ سمجھا جاتا ہے وہ ہماری ناسمجھ قوم کے ہاتھوں کچھ اس طرح لگا کہ اخلاقی پستی اور دنیا بھر میں بدنامی کی وجہ بن گیا ہے۔ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا کے عائشہ اکرام نامی خاتون نے ٹی وی اور سوشل میڈیا پر رو رو کر اپنے ساتھ بدسلوکی کی دہائی دے کر پورے ملک کو ہلا ڈالا۔

پہلے پولیس کو کیوں نہیں بتایا؟

محترمہ کی کہانی میں کئی ایسے جھول ہیں جسے ایک انسان تو کیا چھوٹا بچہ بھی سمجھ سکتا ہے۔ پہلے پہل تو عائشہ اکرام نے اپنے ساتھ پیش آئے واقعے کی ویڈیو سرِ عام پیش کی جس پر کافی واویلا مچنے کے بعد انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کو ان کے ساتھ ریمبو نے ہجوم میں دھکیلا۔ ریمبو نے انھیں بلیک میل کیا وغیرہ وغیرہ ۔ سوچنے والی بات ہے یہ ساری باتیں انھیں ہمیشہ وقت گزرنے کے بعد ہی کیوں یاد آتی ہیں۔ اگر ان کے ساتھی نے ان کے ساتھ کوئی بدتمیزی کی تھی تو کیا وہ میڈیا یا پولیس کو پہلے اس بارے میں آگاہ نہیں کرسکتی تھی؟ ایک شخص کے ہاتھوں بلیک میل ہوکر رسوا ہونے کی ضرورت کیوں پیش آئی جب ملک میں قانون نافذ کرنے والے ادارے موجود ہیں۔

ٹک ٹاکرز اور سستی شہرت

یہ بے شک اپنی طرز کا پہلا واقعہ ہے لیکن ٹک ٹاک پر بننے والازیادہ تر مواد اخلاقیات کی حدود سے گزر کر ہی بنتا ہے۔ اس سے پہلے حریم شاہ، قندیل بلوچ اور دیگر کئی ایسے ٹک ٹاکرز ہیں جنھوں نے کبھی سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے اور کبھی کسی کو بدنام کرنے کے لئے ٹک ٹاک ویڈیوز کا سہارا لیا۔ لیکن اس سارے معاملے میں وہ یہ بھول گئے کہ ان کی ساری حرکتوں کا خمیازہ ان کے بجائے پورے ملک کی اشرافیہ کو بدنامی کی صورت بھگتنا پڑے گا جس کا اس معاملے سے کوئ تعلق ہی نہیں۔

ملک اور عام شہریوں کی بدنامی

کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ عائشہ اکرام کے قصے سے ہونے والی ملک کی بدنامی میں ایک عام شہری کا کیا قصور ہے؟ اور کیوں اس کا ملک ایک ایسے انسان کی وجہ سے بدنام ہورہا ہے جس نے اپنی ذات کو اپنی مرضی سے لوگوں کے تماشے کے لئے پیش کردیا۔ حکومت سے یہی التجا ہے کہ ایسی ایپلیکشنز پر اس وقت تک پابندی عائد کی جائے جب تک لوگوں میں انھیں استعمال کرنے کا شعور نہیں آجاتا۔ یا پھر ٹک ٹاک استعمال کرنے اور مواد بنانے کے لئے کچھ اخلاقی حدود و قیود بھی قائم کرے۔


Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US