پہلے کا دور الگ تھا جب لڑکی کی شادی ہوتی تھی تو وہ 3 ماہ قبل مایوں میں بیٹھ جاتی تھی اور اس کا چہرہ کوئی باہر والا نہیں دیکھتا تھا، پہلے رخصتی کے وقت لڑکیاں اس قدر روتی تھیں کہ والدین اور سسرال والوں کی آنکھیں بھی نم ہو جاتی تھیں، کچھ تو یہ تک کہہ دیتے تھے کہ بیٹا ہم بھی تمہارے اپنے ہیں، خیال رکھیں گے تمہارا، لیکن اب یہ دور تو بالکل ہی بدل گیا ہے، آج کے دور میں کم ہی دلہنیں ایسی ہیں جو اتنا روتی ہیں، ورنہ زیادہ تر کو تو خود سسرال والے بھی کہہ دیتے ہیں کہ دیکھو زیادہ مت رونا تمہارا میک اپ خراب ہو جائے گا، تصویریں اچھی نہیں ائیں گی۔
اب جیسے آپ اس جوڑے کو دیکھ لیں، کہ ان کی بارات کرین کے ذریعے جا رہی ہے، لیکن لڑکی کے چہرے پر رونے یا آنسوؤں کے کوئی آثار نہیں ہیں، لڑکی بھی خوشی خوشی بیٹھ کر جا رہی ہے اور خود کو خوش نصیب سمجھ رہی ہے۔
اس شادی کا حآل تو سب جانتے ہیں کہ لڑکی خود ہی رخصتی پر گاڑی چلا کر جا رہی ہے وہ بھی ہنزہ کی وادی میں رہنے والی، کہا جاتا ہے شہروں میں تو لڑکیاں اتنی نہیں روتی ہیں جتنا اندرونی علاقوں میں رویا جاتا ہے، جبکہ یہاں تو صورتحال بالکل مختلف ہے۔
دراصل پہلے کے دور میں والدین اپنی بچیوں کو یہ کہہ کر گھر سے وداع کرتے تھے کہ بیٹی جو بھی ہے وہ گھر تمہارا ہی ہے، اب تمہیں اچھا اور برا وقت ان لوگوں کے ساتھ گزارنا ہے، مگر اب کے والیدن اپنی بچیوں کو مضبوط بنا کر بھیجتے ہی اور یہ کہتے ہیں کہ بیٹا شادی ہورہی ہے اب تمہارا گھر بدل جائے گا لیکن رشتے آج بھی وہیں ہیں، تمہیں کچھ بھی تکلیف ہو ہمیں ایک فون کرکے کہہ دینا، ہم آج بھی تمہارا ساتھ دیں گے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ اب بچیاں بڑے دل کے ساتھ رخصت ہوتی ہیں ان کو یہ اطمینان ہوتا ہے کہ جب دل چاہے گا والدین کے پاس آجائیں گی، کھ درد تکلیف میں ان کے والدین سینے سے لگا لیں گے۔ اور کچھ لڑکیاں تو واقعی اپنے مہنگے میک اپ اور اچھی تصویروں کے لئے خود کو رونے سے روکتی ہیں اور جذبات پر قابو کرلیتی ہیں۔