’سی آئی اے سربراہ نے کہا ہم نے پاکستان میں ریڈیو سٹیشن قائم کر لیا‘: افغانستان پر سوویت حملے کا فیصلہ کیسے ہوا؟

۴۶ سال پیش در ٢٧ دسمبر ١٩٧٩(ششم جدی ١٣٥٨) پس از آن که کماندوهای آلفا شوروی، حفیظ الله امین، رئیس‌جمهور وقت افغانستان را در قصر تاج بیگ مسموم کردند و کشتند، نیروهای شوروی اشغال افغانستان را آغاز کردند. اشغال افغانستان نمونه‌ای است که چگونه دو ابرقدرت آن زمان، شوروی و امریکا در اوج جنگ سرد، ترس از نیت و فعالیت‌های پنهانی همدیگر را جایگزین تحلیل واقعی از رفتارهای هم کردند و به آن واکنش نشان دادند.
The remains of Soviet tanks around Kabul.
Getty Images
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں سویت فورسز کے ٹینک

سوویت ’الفا‘ کمانڈوز کی جانب سے تاج بیگ محل میں افغان صدر حفیظ اللہ امین کو زہر دے کر قتل کیے جانے کے بعد دسمبر 1979 کے آخری ہفتے میں سوویت افواج نے افغانستان پر قبضے کا آغاز کیا۔

امریکی نیشنل سکیورٹی آرکائیو کی دستاویزات کے مطابق سوویت سیاسی قیادت کے ایک محدود حلقے، جس کی سربراہی لیونڈ بریژنیف کر رہے تھے، کو خدشہ تھا کہ حفیظ اللہ امین مغرب کی طرف جھکاؤ کی پالیسی اختیار کر سکتے ہیں اور یہی خوف افغانستان پر سوویت یلغار کا سبب بنا۔

دوسری جانب واشنگٹن میں اس قبضے کو سوویت یونین کے توسیع پسندانہ عزائم کا شاخسانہ قرار دیا گیا، جس کا مقصد گرم پانیوں تک رسائی تھا۔

یہ قبضہ اس بات کی مثال ہے کہ سرد جنگ کے دور میں دو سپر پاورز، سوویت یونین اور امریکہ، کس طرح ایک دوسرے کے عزائم اور خفیہ سرگرمیوں کے خوف کو حقیقی تجزیوں اور ردعمل میں بدلتے رہے۔

کابل کے عوام نے صدر امین کے قتل کی خبر ریڈیو پر ببرک کارمل کی آواز میں سُنی، جنھوں نے امین کو ’فاشسٹ اور سی آئی اے کا جاسوس‘ قرار دیا۔ یہ پیغام پہلے سے ریکارڈ شدہ تھا اور اسے ریڈیو تاجکستان سے نشر کیا گیا تھا۔

ببرک کارمل، اسلم وطنجار، گلاب زئی، اسد اللہ سروری، عبدالوکیل اور نجیب اللہ (أفغانستان کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے پارچم دھڑے سے تعلق رکھنے والے رہنما) اپنی جلاوطنی ختم کرتے ہوئے سوویت افواج کے ساتھ ہی کابل میں داخل ہوئے اور نئی حکومت قائم کی۔

امریکہ کے لیے اہم کیا تھا؟

افغانستان سے سویت افواج کے انخلا کے وقت زبگنیو بریژنسکی امریکی صدر جمی کارٹر کے مشیر تھے
Getty Images
افغانستان سے سویت افواج کے انخلا کے وقت زبگنیو بریژنسکی امریکی صدر جمی کارٹر کے مشیر تھے

اکتوبر 1979 میں امریکی قومی سلامتی کے مشیر زبگنیو بریژنسکی نے وزیر خارجہ سائرس وینس کو خط میں لکھا کہ افغانستان میں سوویت افواج کی بڑی تعداد کی تعیناتی ’مداخلت‘ کی متقاضی ہے، لہٰذا افغانستان کے مسئلے کو عالمی رائے عامہ اور خطے کے اتحادی ممالک کے سامنے مسلسل اجاگر کیا جانا چاہیے۔

سوویت پولیٹیکل بیورو کی دستاویزات کے مطابق ماسکو افغانستان پر قبضے کے بعد گرم پانیوں تک رسائی کے منصوبے پر عمل پیرا نہیں تھا، جیسا کہ واشنگٹن میں سمجھا جا رہا تھا۔ تاہم امریکی قومی سلامتی کے مشیر زبگنیو بریژنسکی نے اس قبضے کو مختلف زاویے سے دیکھا۔ ریڈ آرمی کی آمد کے بعد افغانستان اچانک امریکی صدور جمی کارٹر اور رونالڈ ریگن کی خارجہ پالیسی میں اولین ترجیح بن گیا۔

آگے چل کر بریژنسکی، جو پولش نژاد امریکی سفارتکار اور سوویت ماہر تھے، نے امریکی خارجہ پالیسی میں کمیونزم کے خلاف جہادی قوتوں کے استعمال کا تصور متعارف کرایا۔

ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ’جس دن روسیوں نے باضابطہ طور پر أفغانستان کی سرحد عبور کی اور وہاں داخل ہوئے، میں نے صدر کارٹر کو لکھا کہ اب ہمارے پاس موقع ہے کہ روسیوں کو اُن کی ویتنام جنگ دی جائے۔ درحقیقت، دس برس تک ماسکو کو ایسی جنگ میں شامل کرنے پر زور دیا گیا جس کو لڑنے کی صلاحیت اُس کی حکومت کے پاس نہیں تھی۔‘

اچانک فیصلہ

نور محمد تراکئی اپنی ہلاکت سے ایک ہفتے قبل ماسکو میں ایک اجلاس میں شریک ہوئے تھے
Getty Images
نور محمد تراکئی اپنی ہلاکت سے ایک ہفتے قبل ماسکو میں ایک اجلاس میں شریک ہوئے تھے

مارچ 1979 میں سوویت وزارتِ خارجہ میں ہونے والی اندرونی بحث میں یہ بات سامنے آئی کہ کریملن نے اس سے قبل افغانستان کی فوجی مدد کی بار بار درخواستیں مسترد کر دی تھیں لیکن دسمبر میں سوویت قیادت نے اچانک قبضے کا فیصلہ کر لیا۔

سوویت افواج کے افغانستان پر قبضے سے ایک سال قبل یعنی 12 فروری 1978 کو ایران میں اسلامی انقلاب لانے کی کوششیں کامیاب رہی تھیں۔ جبکہ سوویت قیادت کو یہ بھی خدشہ تھا کہ افغانستان میں بھی مصر جیسا تجربہ دہرایا جا سکتا ہے اور حفیظ اللہ امین کا مغرب کی طرف جھکاؤ انور سادات کے سنہ 1972 کے اُس فیصلے سے مشابہ تھا، جس کے نتیجے میں ہزاروں سوویت مشیروں کو مصر سے نکال دیا گیا اور مصر اسرائیل کے بعد امریکی امداد حاصل کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک بن گیا۔

اسی سال 14 ستمبر کو حفیظ اللہ امین نے کابل قلعے میں اندرونی اختلافات کے باعث نور محمد ترکئی کو قتل کر کے اچانک اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ ترکئی، جنھیں ’افغانستان کا لینن‘کہا جاتا تھا، ایک ہی رات میں سیاسی منظرنامے سے غائب ہو گئے۔

ترکئی ایک ہفتہ قبل ہی ہوانا اور ماسکو کے دورے سے واپس آئے تھے، جہاں ان کی لیونڈ بریژنیف سے گرمجوش ملاقات ہوئی تھی۔

سوویت پولٹیکل بیورو کی دستاویزات کے مطابق اکتوبر میں افغانستان کے بارے میں سوویت قیادت کے رویے میں اچانک تبدیلی آئی۔ دو واقعات نے ماسکو کو شدید تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ ایک ترکئی کا قتل اور 27 اکتوبر کو کابل میں حفیظ اللہ امین کی امریکی سفارتکار آرچر بلڈ سے ملاقات۔

امین پر امریکہ کے لیے جاسوسی کرنے کا الزام کیوں تھا؟

پریس کانفرنس میں شریک حفیظ اللہ امین
Getty Images
پریس کانفرنس میں شریک حفیظ اللہ امین

آرچر بلڈ وہ آخری امریکی سفارتکار تھے جنھوں نے حفیظ اللہ امین سے ملاقات کی تھی۔ اس سے قبل امین نے اکتوبر کے آغاز میں کابل میں امریکی ناظم الامور بروس ایمستاز کو نئے امریکی سفیر سے متعارف کرانے اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی، چونکہ ایمستاز کی ذمہ داری ختم ہو چکی تھی لہذا امریکی محکمہ خارجہ نے دہلی سے آرچر بلڈ کو کابل بھیجا تاکہ وہ امین سے ملاقات کریں۔

ایمستاز نے سنہ 1979 میں کئی سفارتی دعوتوں کے دوران امین سے ملاقاتیں کی تھیں۔ واشنگٹن کو بھیجی گئی ایک رپورٹ میں ایمستاز نے لکھا کہ اُن کی امین سے گفتگو صرف 15 منٹ جاری رہی۔ اپنی رپورٹوں میں انھوں نے امین اور اُن کے حلقہ احباب کو ’بچھوؤں کا ایسا جھنڈ جو ایک دوسرے کو ڈنک مار کر ختم کر رہا ہے‘قرار دیا۔

28 اکتوبر کو واشنگٹن کو بھیجی گئی رپورٹ میں آرچر بلڈ نے امین سے اپنی ملاقات کی تفصیلات بیان کیں۔ انھوں نے لکھا کہ 27 اکتوبر کی صبح اُن کی امین سے 40 منٹ ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں امین نے امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی خواہش ظاہر کی، لیکن کوئی ’ٹھوس اقدامات‘ تجویز نہ کیے اور صرف امریکی ’مدد‘ کی درخواست کی، چاہے وہ معمولی ہی کیوں نہ ہو۔

بلڈ نے امین کے انگریزی پر عبور کو ’بہت اچھا اور قابلِ فہم‘ قرار دیا اور ملاقات کے دوران اُنھیں ’پُرجوش‘ پایا۔ امین نے کہا کہ انھوں نے اپنی حکومت کو عوامی سطح پر امریکہ مخالف بیانات دینے سے روکا ہے اور امید ظاہر کی کہ دونوں ممالک ’مشترکہ مفادات‘ تلاش کر سکتے ہیں۔

بلڈ کے مطابق امین نے اپنے ’سخت اور ظالمانہ چہرے‘ کو نرم لہجے اور رویے سے بخوبی چھپا لیا تھا۔

بلڈ نے امریکی امداد میں رکاوٹوں کا ذکر بھی کیا، جن میں کابل میں امریکی سفیر ایڈولف ڈوبس کے قتل کی ذمہ داری واضح کرنے کی ضرورت شامل تھی۔ ڈوبس 14 فروری 1979کو کابل کے ایک ہوٹل میں یرغمالی واقعے کے دوران افغان سکیورٹی فورسز اور حملہ آوروں کے درمیان جھڑپ میں مارے گئے تھے۔

بلڈ کی رائے تھی کہ امین کسی نہ کسی وجہ سے امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے خواہاں تھے، لیکن وہ نہیں سمجھتے تھے کہ امین ’واقعی تعلقات بہتر بنانے اور امریکی امداد حاصل کرنے کی توقع رکھتے ہیں۔‘

حفیظ اللہ امین نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے طالب علم رہ چکے تھے۔

افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے دن وائٹ ہاؤس میں کیا ہوا؟

27 دسمبر کو جب امریکی سفارتکار ایمستاز نے کابل سے واشنگٹن کو کئی تفصیلی رپورٹس بھیجیں، تو بظاہر انھیں ابھی تک حکومت کی تبدیلی کا علم نہیں تھا۔ اپنی رپورٹ میں انھوں نے سوویت فضائی افواج کی نقل و حرکت کا ذکر کیا، جس میں 200 طیارے اور ہزاروں فوجی شامل تھے۔ انھوں نے لکھا کہ عوام کی رائے میں یہ افواج ’نفرت زدہ امین حکومت کے بقا کی ضمانت‘ ہیں۔

انھوں نے ایک افغان دکاندار کا حوالہ دیا جس نے کہا کہ ’اب افغانستان دوسرا چیکوسلواکیہ بن رہا ہے۔‘

اب تک کابل میں امریکی ناظم الامور کی اطلاعات صرف اس حد تک محدود تھیں کہ سوویت افواج اب حکومتی فوج کے ساتھ مل کر باغیوں (مجاہدین) کے خلاف لڑیں گی۔ ایک اور نوٹ میں انھوں نے افغانستان کے لیے نئی امریکی پالیسی کی سفارش کی اور سوویت افواج کی تعیناتی کو ’کثیر المقاصد‘ قرار دیا۔

27 اکتوبر کی شام صدر جمی کارٹر نے وائٹ ہاؤس میں ایک اہم اجلاس بلایا، جس میں محکمہ دفاع کے جرنیل، وزیر خارجہ سائرس وینس، قومی سلامتی کے مشیر زبگنیو بریژنسکی، سی آئی اے کے ڈائریکٹر اور نائب صدر سٹینفیلڈ ٹرنر شریک ہوئے۔ اجلاس میں افغانستان اور خطے کی صورتحال پر تفصیلی غور کیا گیا اور نتائج اخذ کیے گئے۔

اجلاس کا آغاز ایڈمرل ٹرنر کے بیان سے ہوا کہ ’آج تک ہمیں ماسکو کی افغانستان میں نقل و حرکت کے مکمل عزائم معلوم نہیں۔ ہمیں صرف یہ علم ہے کہ ببرک کارمل پارچمی پراگ میں سفیر تھے اور سوویت افواج نے تنازعے میں مداخلت کی ہے۔‘

بریژنسکی نے سوال کیا کہ 'کیا ریڈیو افغانستان کابل سے باہر بھی نشریات کرتا ہے؟ ’ٹرنر نے جواب دیا کہ ہم نہیں جانتے۔‘

نائب صدر نے پوچھا کہ ’اب سوویت فوجیوں کی صحیح تعداد کتنی ہے؟ٹرنر نے کہا کہ تقریباً 10 ہزار، لیکن ہمیں درست تعداد معلوم نہیں۔‘

کابل میں موجود قصر دارالامان افغانستان میں سویت افواج کا ہیڈ کوارٹر تھا
Getty Images
کابل میں موجود قصر دارالامان افغانستان میں سویت افواج کا ہیڈ کوارٹر تھا

امریکی تحریک کا آغاز

اسی اجلاس میں ٹرنر نے واشنگٹن میں سی آئی اے کی ایک خفیہ کارروائی کی رپورٹ دی، جس کے تحت’سائیکولاجیکل آپریشنز ٹیم‘ تشکیل دی گئی تھی تاکہ افغانستان کے بارے میں خبری مواد تیار کیا جا سکے۔

سی آئی اے کے سربراہ نے کہا کہ ’ہم نے نومبر میں پاکستان میں ایک ریڈیو سٹیشن قائم کیا، جس پر امین نے شکایت بھی کی تھی۔ ہم نے 150 مضامین تیار کیے جو بین الاقوامی اشاعتوں میں شائع کیے گئے۔ ہم نے سعودی عرب سے بھی بات کی تاکہ پاکستان کے ساتھ مل کر اسلحے کی فراہمی کے لیے مالی تعاون کیا جا سکے۔‘

امریکی وزیر خارجہ سائرس وینس نے زور دیا کہ اس وقت افغانستان کے مسئلے کو اقوامِ متحدہ میں نہ اٹھایا جائے بلکہ توجہ ایران میں امریکی یرغمالیوں کی رہائی پر مرکوز کی جائے۔

آٹھ دسمبر کو بریژنیف کے ذاتی دفتر، جسے ’چھوٹا سیاسی بیورو‘ کہا جاتا تھا، میں یوری آندروپوف، سٹینوف اور سوویت وزیر خارجہ آندرے گرومیکو نے ایک اجلاس میں افغانستان میں ریڈ آرمی کے 40ویں کور بھیجنے کا حتمی فیصلہ کیا۔

سوویت خارجہ پالیسی کی دستاویزات میں ان افواج کی تعیناتی کو ’ابتدائی اقدامات‘ کہا گیا ہے اور ’سوویت افواج کی محدود یونٹس‘ کی اصطلاح استعمال نہیں کی گئی، جو بعد میں سوویت لٹریچر اور افغان عوام اور حکومت میں عام ہو گئی۔ ببرک کارمل کی حکومت اور سوویت یونین نے 1989 میں فوجی انخلا تک سرکاری بیانات میں بار بار ’سوویت افواج کی محدود یونٹس‘ کا حوالہ دیا۔

سوویت سفیر اناطولی ڈوبرینن، جو کئی برس واشنگٹن میں تعینات رہے، نے روسی صدارتی آرکائیو میں دیکھی گئی دستاویزات کے حوالے سے کہا کہ ’آٹھ دسمبر کے اجلاس میں کے جی بی کے سربراہ یوری آندروپوف اور وزیر دفاع مارشل سٹانوف نے سوویت یونین کی جنوبی سرحدوں پر خطرات اور افغانستان میں امریکی درمیانی فاصلے کے میزائل نصب کیے جانے کے امکانات پر بات کی، جو قازقستان، سائبیریا اور دیگر علاقوں کے سٹریٹجک اہداف کو نشانہ بنا سکتے تھے۔‘

12 دسمبر کو اسی چھوٹے گروپ نے سیاسی بیورو کے سامنے افغانستان پر حملے کا مسودہ پیش کیا، جو چیرنینکو کی تحریر میں تھا اور جسے کریملن کے ٹائپسٹ نے بھی نہیں دیکھا تھا۔ اجلاس میں موجود افراد نے بغیر کسی سنجیدہ بحث کے محض دستخط کر دیے۔

اس مسودے کا عنوان تھا 'افغانستان کی صورتحال پر‘ اس میں سوویت وزیرِاعظم الیکسی کوسیگن کا نام موجود تھا لیکن دستخط نہیں تھے۔ کہا جاتا ہے کہ کوسیگن اس وقت ہسپتال میں تھے اور انھوں نے مارچ 1979 میں نور محمد ترکئی سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے افغانستان پر حملے کی مخالفت بھی کی تھی۔‘

اس منصوبے، جسے پولٹیکل بیورو نے منظور کیا، میں درج تھا کہ ’آندروپوف، سٹینوف اور گرومیکو کی جانب سے غور کیے گئے اقدامات کی منظوری اور انھیں کارروائی کے لیے اختیار دینا۔‘ دوسرے پیراگراف میں کہا گیا کہ یہ تینوں افراد اپنی کارروائیوں کی رپورٹ پولٹیکل بیورو کو پیش کریں گے۔

تصویر یک سند که تصمیم بیروی سیاسی حزب کمونیست شوروی را در حمله به افغانستان نشان می‌دهد
NSA

یہ آندروپوف کا منصوبہ تھا

دستاویزات کے مطابق افغانستان پر حملے کا منصوبہ سوویت خفیہ ایجنسی (کے جی بی) کے سربراہ یوری آندروپوف کا تھا۔ حفیظ اللہ امین کے مختصر ساڑھے تین ماہ کے دورِ حکومت میں کے جی بی کے جنرل بورس اووانوف، جو کابل میں سب سے سیینئر روسی اہلکار تھے اور افغانستان کی صورتحال سے بخوبی آگاہ تھے، نے دیکھا کہ افغانستان میں سوویت اثر و رسوخ کم ہو رہا ہے۔

انھوں نے کابل میں حکومت کی تبدیلی کے لیے سوویت فوجی مداخلت کی سفارش کی تھی۔

آندروپوف نے مارچ 1979 میں بھی افغانستان میں فوجی مداخلت کا منصوبہ پیش کیا تھا، لیکن اُس وقت سوویت سیاسی قیادت نے اس کی مخالفت کی تھی۔

پولٹیکل بیورو کی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کریملن کو امین کی امریکی سفارتکار سے ملاقات پر شدید شبہات تھے۔

سابق سوویت سفیر اناطولی ڈوبرینن، جو کئی برس واشنگٹن میں تعینات رہے، نے کریملن آرکائیو میں آندروپوف کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آندروپوف نے اس اجلاس میں حفیظ اللہ امین کو افغان حکومت اور فوج میں سیاسی بے چینی کا سبب قرار دیا اور کہا کہ ’امین کی پسِ پردہ سرگرمیوں کے بارے میں ہمیں جو معلومات ملی ہیں، اُن کا مطلب ہے کہ وہ مغرب کی طرف جھکاؤ اختیار کر رہا ہے۔ اس نے امریکی ناظم الامور سے تعلق کو ہم سے خفیہ رکھا۔ اور قبائلی رہنماؤں کو سوویت یونین سے دور رہنے اور غیر جانبدارانہ رویہ اپنانے کی ترغیب دی ہے۔‘

دستاویزات کے مطابق دسمبر کے آغاز میں اُس وقت کے سوویت وزیر دفاع دمتری اسٹانسلاووچ نے آندروپوف کے ساتھ افغانستان پر حملے اور 75 سے 80 ہزار فوجی بھیجنے پر اتفاق کیا۔ تاہم سوویت چیف آف سٹاف اس قدر بڑی تعداد میں فوجی بھیجنے کے خلاف تھے۔

ایک اور دستاویز میں درج ہے کہ 10 دسمبر کو سٹینوف نے سوویت فوج کے چیف آف سٹاف جنرل نکولائی ایگرکوف کو طلب کیا اور حکم دیا کہ 75 سے 80 ہزار فوجی افغانستان بھیجے جائیں۔ جنرل ایگرکوف نے اس فیصلے کو ’بے احتیاطی‘ قرار دیتے ہوئے نتائج سے خبردار کیا اور فیصلہ واپس لینے کی کوشش کی۔

لیکن سٹینوف نے غصے سے کہا ’کیا آپ ہمیں سیاسی درستگی سکھانا چاہتے ہیں؟ آپ صرف احکامات پر عمل درآمد کے ذمہ دار ہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US