ایک جوان لڑکے اور لڑکی کے لیے سب سے مشکل وقت اس وقت آتا ہے جب اس کی شادی نہیں ہو رہی ہوتی اور اس مشکل صورتحال میں لوگ طعنے دیتے ہیں اور اس بات پر انکار کر دیتے ہیں کہ لڑکی کالی ہے یا لڑکا کماتا بہت کم۔
ہماری ویب ڈاٹ کام کی ایسی ہی خبر لے کر آئی ہے جس میں آپ کو ایک خاتون راحت کی زندگی کے مشکل لمحہ کے بارے میں بتائیں گے۔
بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں راحت نامی خاتون نے اپنی زندگی کے سب سے تلخ لمحات کو شئیر کیا۔ راحت ایک نرم دل شخصیت کی مالکن ہیں، جبکہ انہیں ہر ایک سے پیار سے بات کرنا پسند ہے، مگر شاید اس سماج میں موجود کچھ لوگ اس پیار کے حقدار ہی نہیں۔
راحت کی زندگی میں ویسے تو کئی لمحہ گزرے ہیں لیکن وہ لمحات آج بھی انہیں درد پہنچاتے ہیں جب لڑکے والے انہیں دیکھنے آتے تھے۔ راحت بتاتی ہیں کہ ہر بار لڑکے والے آتے ہیں دیکھتے ہیں ہم کیسے چل رہے ہیں، کیسے اٹھ رہے ہیں، ہماری ناک کیسی ہے، بال کتنے لمبے ہیں۔ لوگ یہ دیکھنے آ رہے ہیں۔
راحت بتاتی ہیں کہ مجھے میری شادی سے پہلے 40 خاندان والے دیکھنے آئے۔ ہر بار ایک فون کال آتی اور رشتہ کرنے والی بتاتی کہ ایک لڑکا ہے۔ لڑکے کے گھر والے آتے، مجھے دیکھتے اور چلے جاتے، پھر کبھی دوبارہ جواب نہیں دیتے۔
لڑکے والے آتے اور ہمیں دیکھتے، جبکہ ہمیں مشکل سے ایک دو خاندان کے لڑکوں کو پرکھنے کا موقع ملا۔ مجھے کبھی کچھ کہنے کی یا اپنی رائے کے اظہار کی اجازت ہی نہیں ہوتی تھی۔
راحت اس بات کو لے کر کافی افسردہ ہیں کہ سماج میں لڑکا جیسا بھی ہو، چل جاتا ہے، مگر لڑکی ہمیشہ پسند کی درکار ہوتی ہے، وہ آںکھ چاہیے جو خوبصورت ہو۔ لیکن لوگ بھول جاتے ہیں کہ لڑکیاں ٹیلر میڈ نہیں ہوتی ہیں۔ اگر آپ کو اپنی پسند کی لڑکی چاہیے تو پھر لڑکی کو بھی حق ہے اپنے پسند کے لڑکے کو منتخب کرنے کا۔
لڑکے اگر پھٹی پرانی جینز پہن کر آ کر رشہ لے کر بیٹھ جائئیں تو کوئی بات نہیں، کیوں بھائی کیا آپ کو کوئی مسترد نہیں کر سکتا کیا؟ راحت جب یہ بات کر رہی تھیں تو ان کے آنکھوں میں درد موجود تھا، ان کی آواز میں وہ تکلیف محسوس ہو رہی تھی۔
جب ایک کے بعد ایک رشتہ والے آتے رہتے ہیں اور آپ کو مسترد کرتے ہیں تو آپ کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے، آپ کے حوصلے پست ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
راحت اب شادی شدہ ہیں اور ان کے شوہر شاہ صاحب ایک ایسے انسان ہیں جو کہ بناوٹ پر توجہ نہیں دیتے بلکہ انسان کی صاف دل کو پرکھتے ہیں اور راحت میں بھی انہوں نے یہی صاف دل پرکھ لیا تھا۔
راحت اور شاہ صاحب ایک ہی آفس میں کام کرتے تھے، جبکہ شاہ صاحب نے راحت سے شادی کرنے کا اظہار کیا جس پر راحت نے ہامی بھر لی۔ راحت کہتی ہیں کہ اس آسان سی بات کے لیے مجھے بہت سی تکلیفوں سے گزرنا پڑا۔
راحت کہتی ہیں کہ میری ساس اور نند جب رشتہ لے کر آئیں تو میری بڑی بہن نے کہا کہ میں راحت کو لے کر آتی ہوں، آپ اسے دیکھ لیں۔ جس پر ساس نے فورا کہا کہ ہم راحت کو دیکھنے نہیں آئے ہیں، بلکہ راحت نام کی بچی کو چاہے جیسی بھی دکھتی ہو، اسے اپنی بہو بنانے آئے ہیں۔
راحت کے لیے دکھ کی بات یہ بھی ہے کہ کل میں تھی، آج کوئی اور ہے اور کل کوئی اور ہوگی۔ روز کوئی نا کوئی لڑکی مسترد ہوتی ہے۔ راحت کی کہانی ایک ایسی دردناک لمحات پر مبنی ہے، جس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جو کہ شادی کی عمر کو پہنچ چکا ہو اور مسترد ہوا ہو۔ لیکن بات یہ بھی ہے کہ یہ عمل انسان کی تزلیل ہے اور انسان کی تزلیل کرنا حقوق العباد کی سنگین خلاف ورزی ہے۔