شہربانو نقوی: لاہور میں ڈاکٹر اور مریضہ کے درمیان تنازعے میں پولیس افسر کا نام کیوں آیا؟

لاہور میں ایک ڈاکٹر کی جانب سے پہلے ایک پوڈکاسٹ اور پھر پریس کانفرنس میں پنجاب پولیس کی خاتون پولیس افسر شہربانو نقوی پر دباؤ ڈال کر رقم دلوانے کے الزامات لگائے جانے کے بعد اگرچہ پولیس افسر کا ردعمل سامنے آ گیا ہے لیکن سوشل میڈیا پر اس معاملے پر بحث تھمتی دکھائی نہیں دے رہی۔

لاہور میں ایک ڈاکٹر کی جانب سے پہلے ایک پوڈکاسٹ اور پھر پریس کانفرنس میں پنجاب پولیس کی خاتون پولیس افسر شہربانو نقوی پر دباؤ ڈال کر رقم دلوانے کے الزامات لگائے جانے کے بعد اگرچہ پولیس افسر کا ردعمل سامنے آ گیا ہے لیکن سوشل میڈیا پر اس معاملے پر بحث تھمتی دکھائی نہیں دے رہی۔

علی زین العابدین نامی ڈاکٹر نے حال ہی میں لاہور پولیس کی افسر شہر بانو نقوی پر الزام عائد کیا تھا کہ انھوں نے مذکورہ ڈاکٹر پر ایک مریضہ کو لاکھوں روپے زرِ تلافی ادا کرنے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔

ادھر ایس پی شہربانو نقوی نے خود پر عائد الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی نو مئی 2025 کو دونوں فریقین سے ملاقات ہوئی تھی تاہم اس ملاقات میں پیسوں کا کوئی لین دین نہیں ہوا تھا جبکہ ڈاکٹر پہلے ہی غلطی تسلیم کر کے مریضہ سے معافی مانگ چکے تھے۔

خیال رہے کہ مریضہ فرحت عباس کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے شوہر کے ہمراہ ڈاکٹر علی کے کلینک گئی تھیں جہاں ڈاکٹر نے دونوں کو لیزر سرجری کرانے کا مشورہ دیا مگر اس سے ان کی بینائی متاثر ہوئی۔

لاہور پولیس کا کہنا ہے کہ تاحال آئی سرجن ڈاکٹر علی زین العابدین یا مریضہ فرحت عباس میں سے کسی فریق کے خلاف مقدمہ درج نہیں کیا گیا ہے تاہم اس معاملے کی تحقیقات کی گئی ہیں تاہم ماڈل ٹاؤن تھانے کی پولیس کا یہ ضرور کہنا ہے کہ ڈاکٹر علی زین العابدین کے خلاف مزید شکایات بھی موصول ہو چکی ہیں اور ان پر بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

آئی سرجری کا معاملہ معاوضے کے مطالبے میں کیسے بدلا

رواں سال مئی میں مریضہ فرحت عباس نے لاہور پولیس کو دی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ وہ اپنے شوہر کے ہمراہ ڈاکٹر علی زین العابدین کے کلینک معمول کے معائنے کے لیے گئیں۔

اس معائنے کے بعد ڈاکٹر نے، ان کے بقول، انھیں سرجری کا مشورہ دیا اور یقین دلایا کہ یہ فوری اور موثر حل ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ڈاکٹر کے اصرار پر انھوں نے یہ طریقہ علاج اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔

درخواست کے مطابق اس علاج کے لیے انھوں نے ساڑھے تین لاکھ روپے فیس ادا کی جبکہ چیک اپ کی فیس اس کے علاوہ تھی۔ تاہم سرجری کے باوجود وہ اور ان کے شوہر شدید تکلیف میں مبتلا رہے۔

فرحت عباس کا دعویٰ ہے کہ ڈاکٹر کی مبینہ نااہلی کی وجہ سے انھیں مالی اور ذہنی نقصان اٹھانا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر نے انھیں بتایا تھا کہ لیزر سرجری کے بعد انھیں عینک کی ضرورت نہیں رہے گی تاہم علاج کے فوراً بعد ہی انھیں شدید تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔

ان کے مطابق جب انھوں نے ڈاکٹر سے شکایت کی تو انھیں تسلی دی جاتی رہی۔ بعد ازاں انھوں نے مختلف نجی اور سرکاری ہسپتالوں میں متعدد ڈاکٹروں سے مشورہ کیا جہاں 'تمام ڈاکٹروں کی رائے تھی کہ ان کی عمر اور موجودہ بیماریوں کے تناظر میں لیزر سرجری مناسب نہیں تھی۔'

مریضہ کا دعویٰ ہے کہ اس سرجری سے ان کی بینائی متاثر ہوئی اور ڈاکٹر نے انھیں معاوضہ دینے کا وعدہ کیا
Getty Images
مریضہ کا دعویٰ ہے کہ اس سرجری سے ان کی بینائی متاثر ہوئی اور ڈاکٹر نے انھیں معاوضہ دینے کا وعدہ کیا

مریضہ فرحت عباس کا کہنا ہے کہ انھوں نے پاکستان اور برطانیہ دونوں جگہ طبی معائنہ کروایا جہاں ڈاکٹروں نے تصدیق کی کہ اس عمر اور بیماریوں میں لیزر سرجری مناسب نہیں تھی اور اس کے باعث مزید پیچیدگیاں پیدا ہو چکی ہیں۔

فرحت عباس کے مطابق جب وہ دوبارہ ڈاکٹر علی زین کے کلینک گئیں تو ڈاکٹر نے پہلے ہی فیس کی واپسی کا چیک لکھ رکھا تھا۔ تاہم ان کا مطالبہ تھا کہ مزید علاج کے اخراجات بھی ادا کیے جائیں جس پر ڈاکٹر نے ’تحریری طور پر اخراجات برداشت کرنے کا وعدہ کیا۔‘

مریضہ نے ایک وکیل کے ذریعے ڈاکٹر علی زین کو قانونی نوٹس بھجوایا اور پولیس میں درخواست دائر کی جس کے بعد ڈاکٹر علی زین نے ان کے ساتھ ’ایک تحریری معاہدہ کیا۔‘

اس معاہدے کی ایک کاپی بی بی سی کو فراہم کی گئی ہے جس کے مطابق ڈاکٹر علی زین نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے تحریری معذرت کی اور آئندہ علاج کے تمام اخراجات ادا کرنے کا وعدہ کیا۔

معاہدے پر دو گواہوں کے دستخط بھی موجود ہیں جنھوں نے بی بی سی سے تصدیق کی کہ ان کی موجودگی میں یہ معاہدہ ہوا تھا۔

ڈاکٹر کا ’ساکھ بچانے کے لیے‘ مریضہ کو لاکھوں روپے معاوضہ دینے کا دعویٰ

بی بی سی نے اس معاہدے کے حوالے سے ڈاکٹر علی زین سے رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا تاہم 27 دسمبر کو ڈاکٹر علی زین العابدین نے لاہور پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے خلاف لگائے گئے الزامات بےبنیاد ہیں اور انھیں ایک ’منظم مہم کے تحت ہراساں کیا جا رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اپریل میں کی جانے والی لیزر سرجری مکمل طور پر کامیاب تھی اور اس حوالے سے تمام طبی تقاضے پورے کیے گئے تھے۔ ڈاکٹر علی زین کے مطابق مریضہ اور ان کے اہل خانہ نے سرجری سے قبل تحریری رضامندی دی تھی۔

ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنی ’ساکھ بچانے کے لیے‘ مریضہ اور ان کے شوہر کی آپریشن کی فیس کی واپسی کی مد میں قریب چار لاکھ روپے کا چیک دیا تھا۔ ’ساتھ اس صفحے پر یہ بھی لکھ کر دیا کہ اگر کوئی مسئلہ ہوا تو میں اسے دیکھ لوں گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اگلے ہی دن ایک ایس ایچ او نے انھیں اے ایس پی شہربانو نقوی سے ملاقات کا کہا۔ انھوں نے الزام لگایا کہ بعد ازاں شہربانو نقوی نے ان پر دباؤ ڈالا کہ وہ مریضہ کو لاکھوں روپے بطور معاوضہ ادا کریں حالانکہ یہ معاملہ طبی نوعیت کا ہے جس کا فیصلہ ’صرف پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل یا کسی مستند میڈیکل بورڈ کو کرنا چاہیے۔‘

انھوں نے یہ شکایت کی کہ ان کی جانب سے رقم دیے جانے کے باوجود مریضہ نے اپنے آئندہ علاج کے اخراجات بھی انھی سے وصول کرنے کی کوشش کی۔

انھوں نے کہا کہ وہ اب تک مریضہ کو قریب ساڑھے سات لاکھ روپے ادا کر چکے ہیں اور قریب سات لاکھ روپے کے چیکس مریضہ کے پاس ہیں جو ابھی تک کیش نہیں ہوئے۔

ڈاکٹر علی زین کا کہنا تھا کہ پولیس کا اس نوعیت کے معاملات میں مداخلت کرنا ’نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ اس سے طبی شعبے کے ماہرین کو بلیک میل کرنے کا راستہ بھی کھلتا ہے۔‘

’اگر یہ سارے فیصلے پولیس نے ہی کرنے ہیں تو ہیلتھ کے کمیشن کا کردار ختم کر دینا چاہیے۔‘

اس موقع پر ڈاکٹر کے وکیل نے میڈیا کو بتایا کہ ان کے موکل کو طاقتور حلقوں کی جانب سے دھمکی دی گئی ہے کہ اگر آپ نے معاملہ حل نہ کیا تو آپ کے خلاف ہیلتھ کمیشن میں 10 کیسز تیار ہیں۔

شہربانو نقوی اور پولیس کا موقف

ایس پی سٹی شہربانو نقوی نے بی بی سی سے گفتگو میں ڈاکٹر علی زین کے الزامات کی سختی سے تردید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے نہ تو کسی قسم کا دباؤ ڈالا اور نہ ہی ڈاکٹر کو ہراساں کیا۔

ایس پی کے مطابق مریضہ کی درخواست پر ابتدائی انکوائری کی گئی تھی اور ’ڈاکٹر کو صرف یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ مریضہ سے بات چیت کے ذریعے معاملہ حل کرنے کی کوشش کریں۔‘

انسٹاگرام پر جاری کردہ پیغامات میں شہربانو نقوی کا کہنا تھا کہ ’جرم کا اعترافی بیان اور چیک اس وقت دیے گئے جب کیس ہمارے پاس آیا ہی نہیں تھا۔ دونوں فریقین سے میری ملاقات صرف ایک بار ہوئی وہ بھی 9 مئی 2025 کو میرے دفتر میں۔‘

انھوں نے کہا کہ ڈاکٹر نے اپنے کلینک کے لیٹر ہیڈ پر معافی مانگی تھی۔ ’کسی بھی قسم کا مالی لین دین بعد میں ہوا جب وہ ملاقات کے بعد میرے دفتر سے جا چکے تھے۔‘

’شہربانو نقوی کسی مالی لین دین کا حصہ نہیں تھیں۔ دونوں فریقین نے پہلے سے کیے گئے معاہدے پر عملدرآمد پر اتفاق کیا تھا۔‘

پولیس افسر نے مزید کہا کہ ’مجھے اکتوبر/نومبر کے پہلے ہفتے میں ماڈل ٹاؤن میں تعینات کیا گیا تھا اور اس کے بعد اے ایس پی ڈیفنس کے دفتر سے میرا کوئی تعلق نہیں۔‘

’اگر کوئی شخص خود کو اہم، مقبول یا کامیاب بنانا چاہتا ہے تو براہ کرم یہ میرے نام کی قیمت پر نہ کریں۔ میں نے اپنے والدین اور اس محکمے کی محبت میں دن رات محنت کی ہے۔‘

دوسری طرف پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر علی زین کے خلاف موصول ہونے والی دیگر شکایات کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے اور اگر کسی قسم کی غفلت یا بدعملی ثابت ہوئی تو قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔

پولیس کے مطابق تاحال کسی فریق کے خلاف مقدمہ درج نہیں کیا گیا اور معاملہ انکوائری کے مرحلے میں ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US