““جب میں یہاں آئی تھی تو نئی نویلی دلہن تھی اور اب میری عمر 80 سال ہے۔ لوگ یہاں آتے ہیں اور اپنے پیاروں کی قبروں کی ذمے داری ہمیں دے دیتے ہیں“
یہ جملے کہنے والی 90 برس کی مہر خاتون ہیں جو کراچی کے میوہ شاہ قبرستان کے گیٹ کے باہر پھول بیچتی ہیں۔ مہر خاتون کا پورا خاندان کئی دہائیوں سے اسی قبرستان کی خدمت پر معمور ہے۔
کوئی جن نہیں دیکھا
ایک اور پھول بیچنے والی خاتون کا کہنا ہے کہ وہ یہاں کئی سالوں سے ہیں لیکن جیسا کہ لوگ کہتے ہیں کہ قبرستان میں جن بھوت رہتے ہیں انھوں نے ایسا کچھ نہیں دیکھا۔ وہ ہمیشہ ایک ہی جگہ بیٹھی رہتی ہیں اور پھول بیچتی ہیں جبکہ ان کے بچے بھی قبرستان میں دوسرے کام کرتے ہیں کوئی قبر کھودتا ہے تو کوئی قبر پر پانی ڈالتا ہے۔
نیک لوگوں کا کفن میلا نہیں ہوتا
قبرستان میں دہائیوں سے رہنے والی بوڑھی عورت کہتی ہیں کہ اچھے لوگوں کی قبریں سالوں بعد بھی ویسی ہی رہتی ہیں گندی نہیں ہوتیں لیکن کچھ قبروں کے حال بہت جلدی خراب ہوجاتے ہیں ان کی مغفرت کے لئے دعا کرنی چاہئیے۔
لوگ اپنے پیاروں کی قبروں کی مرمت کرواتے ہیں
بوڑھی عورت کا کہنا ہے کہ پھول بیچنے کے علاوہ کوئی قبرستان آتا ہے اور اپنے پیاروں کی قبریں برے حال میں دیکھتا ہے تو کہتا ہے اس کی مرمت کردو اور بدلے میں ہزار پانچ سو دے دیتا ہے۔ اسی سے گھر چلتا ہے