“مجھے کسی سے فری نہیں ہونا ہوتا اس لئے ماسک لگا لیتی ہوں۔ ڈھانچے والا ماسک اس لئے لگاتی ہوں تاکہ لوگوں کو پتا چلے کہ خطرناک عورت ہے اور کوئی بدتمیزی نہ کرے“
ہنستے ہوئے یہ جملے ادا کرنے والی خاتون کا نام روینہ ندیم ہے جو پانچ بچوں کی والدہ ہیں اور لاہور کی رہائشی ہیں۔ روبینہ کہتی ہیں انھیں بائیک چلانے کا شوق تھا اس لئے سیکھی لیکن پھر حالات ایسے ہوگئے کہ اکیلے شوہر کے پیسوں سے گھر چلانا مشکل ہوگیا تھا اسی لئے انھوں نے خود ہمت کی اور شوق میں سیکھے گئے کام کو پیشہ بنالیا۔
شوہر کا اعتماد ہے جو یہ کام کررہی ہوں
روبینہ کہتی ہیں کہ ان کے شوہر کو ان پر پورا بھروسہ ہے۔ پہلے دن تو شوہر کو اچھا نہیں لگا لیکن جب انھوں نے ضد کی تو ان کے شوہر نے بطور پیشہ انھیں بائیک رائیڈنگ کی اجازت دے دی۔ ایک عورت ہونے کے ناطے بائیک رائیڈر کو کیا مشکلات پیش آتی ہیں اس کے جواب میں روبینہ نے انڈیپینڈینٹ اردو کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ اکثر لوگ رائیڈ بک کرتے ہیں تو کال پر آواز سن کے کہتے ہیں کہ کیا آپ خاتون ہیں؟ جب میں انھیں جواب دیتی ہوں تو وہ رائیڈ کینسل کردیتے ہیں لیکن زیادہ تر لوگ رائیڈ پر بیٹھ جاتے ہیں اورمیری ہمت کو سراہتے ہیں۔ مرد مسافر ہوتے ہیں لیکن درمیان میں کافی فاصلہ ہوتا ہے۔
پرانی موٹر سائیکل خراب ہوتی رہتی ہے
جب روبینہ موٹر سائیکل چلاتی ہیں تو اکثر ان کا سب سے چھوٹا بیٹا ان کے ساتھ بائیک پر بیٹھ جاتا ہے اور انھیں گوگل کے نقشے سے آگے کا راستہ سمجھاتا رہتا ہے۔ روبینہ کہتی ہیں کہ غربت کی وجہ سے وہ نئی بائیک نہیں خرید پارہیں اور پرانی اکثر خراب ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے مسافروں کو بہت پریشانی ہوتی ہے۔ اگر انھیں نئی موٹر سائیکل مل جائے تو وہ زیادہ پیسے کما کر گھر چلانے میں اپنے شوہر کا ہاتھ بٹا سکیں گی۔