آپ نے ایسے کئی واقعات دیکھے ہوں گے جس میں انسان عام زندگی نہیں گزارتا ہے بلکہ اس کے جینے کا انداز دوسروں کو حیرت میں مبتلا کر دیتا ہے۔
ہماری ویب ڈاٹ کام ایک ایسی ہی خبر لے کر آئی ہے جس میں آپ کو ایک ایسے شخص کے بارے میں بتائیں گے جو کہ اپنی ہی دنیا میں رہتا ہے۔
کین اسمتھ اسکاٹ لینڈ کے پہاڑوں میں گزشتہ 74 سالوں سے رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں۔ کین اسمتھ جنگل میں لکڑیوں کو جلا کر اور مچھلیوں کو پکا کر اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن انہیں اس زندگی سے کوئی شکایت نہیں ہے۔
کین مچھلی پکڑتے ہیں، جنگل ہی میں جڑی بوٹیاں تیار کرتے ہیں اور لکڑیاں اکھٹی کرتے ہیں۔ ان کے دن کی شروعات ہی ان کاموں سے ہوتی ہے۔ کین اپنی زندگی سے بے حد خوش ہیں اور وہ اب اسی زندگی میں مگن رہنا چاہتے ہیں۔
کین اسمتھ نے جنگل ہی میں اپنا گھر بنایا ہوا ہے۔ انہوں نے لکڑیاں جمع کر کے اپنا کیبن بنایا ہے جس میں وہ رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ان کا کیبن سڑک سے دو گھنٹے کی مسافت پر ہے۔
کین اسمتھ اپنے بارے میں بتاتے ہوئے سوچنے لگے جیسے وہ ان لمحات کو یاد کر کے آج بھی افسردہ ہو جاتے ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے 12 سال کی عمر میں کام کرنا شروع کیا تھا، جبکہ میں فائر اسٹیشن بناتا تھا۔ کین کی زندگی اس وقت مکمل طور پر تبدیل ہو گئی تھی جب 26 سال کی عمر میں وہ ایک گینگ کے ہتھے چڑھ گئے تھے۔
دراصل جس گینگ سے ان کا پالا پڑا تھا وہ ٹھگوں کا گینگ تھا جو کہ جانی نقصان تک پہنچا سکتا تھا۔ مگر کین خوش قسمتی سے ان ٹھگوں کے چنگل سے نکل گئے تھے۔ لیکن اس گینگ نے انہیں مارا پیٹا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ 23 دنوں تک بے ہوش رہا تھا۔
دراصل جب کین کو اسپتال لے جایا گیا تو ڈاکٹرز کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اب کین کبھی بول نہیں پائیں گے، اور میں کبھی صحتیاب بھی نہیں ہو سکوں گا۔ لیکن شاید یہی وہ وقت تھا جب کین کی زندگی تبدیل ہونے والی تھی۔
کین کہتے ہیں کہ ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ میں کبھی چل نہیں پاؤں گا، مگر میں چل رہا ہوں۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ میں اپنی زندگی کسی کے کہنے کے مطابق نہیں گزاروں گا۔
کین نے اس منفی سوچ کو ذہن سے نکالنے کے لیے مختلف جنگلات کا رخ کیا، وہ جنگلات میں وقت گزارتے جس سے انہیں سکون ملتا۔ انہیں یہ سکون ایک ایسا احساس دیتا تھا جو شاید انہیں عام زندگی میں محسوس نہیں ہوا تھا۔
کین امریکہ اور کینیڈا کی سرحد پر کھڑے تھے تب انہیں خیال آیا کہ سڑک سے اتر کر ویرانے کا رخ کیا جائے اور جہاں تک جایا جا سکتا ہے جایا جائے۔ یوں ہی چلتے چلتے کین 22 ہزار میل کا سفر طے کر چکے تھے۔ کین کے والدین بھی اس دوران انتقال کر گئے تھے، جس کا انہیں علم نہیں تھا۔
وہ اس حد تک جذبات سے خالی ہو چکے تھے کہ انہیں معلوم ہی نہیں ہوا کہ والدین کا انتقال ہو گیا ہے اور میری آنکھوں سے آںسوں نہیں نکل رہے تھے۔
لیکن والدین کا دکھ سب کچھ بھلا دیتا ہے، یہی کچھ ان کے ساتھ بھی ہوا۔ کین سفر کے دوران تھے کہ انہیں والدین کا خیال آیا اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔
اب کین اسکاٹ لینڈ کے انہی جنگلات میں رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اور خوشی خوشی اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔
کین اپنی والدہ کے علاوہ کسی دوسری خاتون سے اس طرح بات نہیں کرتا تھا جس طرح وہ اپنی والدہ سے بات کرتے تھے۔