حال ہی میں کراچی کے مصروف ترین علاقے صدر میں قائم کوآپریٹو مارکیٹ آگ میں لپیٹ میں آکر تباہی کا شکار ہوئی۔ جن تاجروں کی دکانیں کوآپریٹو مارکیٹ میں موجود تھیں وہ اب خاک بن چکی ہیں جس کے باعث متاثرین کی نگاہیں سندھ حکومت کی جانب ہیں لگی ہوئی ہیں۔
صوبائی حکومت نے کوآپریٹو مارکیٹ کے تاجروں کو تو یقین دہانی کرا ہی لی لیکن کوئی عملی اقدامات تاحال عمل میں نہ لائے جاسکے۔
کوآپریٹو مارکیٹ میں کام کرنے والے ایک بوڑھے دوکاندار محمد نوید نے ٹامز آپ کراچی کو اپنا احوال سناتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس جتنا بھی مال ہوتا ہے وہ ادھار پر ہوتا ہے۔ ماہانہ یا ہفتے میں انہیں دینا پڑتا ہے لیکن اب کہاں سے بندوبست کریں۔ انہوں نے آبدیدہ ہوتے ہوئے بتایا کہ یہاں آٹھ سو سے زائد آدمی کام کرتے تھے سب بیروزگار ہوگئے۔
محمد نوید دوکاندار نے کہا کہ یہاں میری دس دوکانیں تھیں جو سب خاک میں مل گئیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ 1964 میں اس مارکیٹ میں آیا تھا اس وقت میں آٹھویں جماعت کا طالبعلم تھا، اور ساری زندگی ہم نے یہاں لگائی۔ انہوں نے بتایا کہ سالوں یہاں محنت کی جو چند گھنٹوں میں راکھ ہوگئی اور اب ہم فٹ پاتھ پر آگئے ہیں۔
محمد نوید نے حکومت سے التجا کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں معاوضہ فراہم کیا جائے اور ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جائے تاکہ ہم کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں۔ انہوں نے دکھ بھرے لہجے کے ساتھ کہا کہ پہلے کورونا نے آفت ڈھائی ہوئی تھی اور اب یہ مسئلہ آگیا۔