چیف جسٹس گلزار احمد نے جس طرح نسلہ ٹاور کو گرانے کے لئے تیزی سے اقدامات کیے ہیں اس رویے نے شہرِ قائد کے باسیوں کے دلوں میں بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔ ان میں سب سے اہم سوال اپنے حصے کی چھت کا حصول اور اس کی پائیداری کا ہے۔
پاکستان میں سب سے زیادہ آمدنی پیدا کرنے والے اس شہر کی بدنصیبی یہ ہے کہ ہہلے ہی یہاں رہنے والوں کو بنیادی ضروریات کے لئے ترس ترس کر گزارا کرنا پڑتا تھا اور اب پے در ہے رہائشی عمارتیں گرائے جانے کے بعد صورتحال مزید بدتر ہوچکی ہے۔ اب کراچی کا رہنے والا گھر بنانے کی خواہش ہونے کے باوجود کسی قسم کی رہائشی اسکیم میں حصہ لینے سے ڈرتا ہے کہ کون جانے کب اس کا گھر غیر قانونی قرار دے کر گرا دیا جائے اور سارا نقصان ہوجانے کے بعد یہ بھی طے نہ ہوپائے کہ آخر اس پورے قصے میں ذمہ دار کون تھا؟
بڑے اور غیر قانونی منصوبوں کے خلاف ایکشن نہیں لیا جاتا
لیکن دوسری طرف غیر قانونی طور پر بنےبڑے منصوبوں کے خلاف کسی قسم کا ایکشن نہیں لیا جارہا بلکہ الٹا انھیں قانونی شکل دی جارہی ہے جس سے کراچی کے شہریوں میں احساسِ محرومی کی کیفیت پیدا ہوچکی ہے۔ ان بڑے منصوبوں میں بحریہ ٹاؤن جیسے غیر قانونی شہر سے لے کر اسلام آباد کے بنی گالہ اور گرانڈ حیات ہوٹل تک شامل ہیں جن کے بارے میں جانتے سب ہیں لیکن آواز اٹھانے کی جرات کوئی نہیں کرتا
قانون سب کے لئے برابر کیوں نہیں؟
ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ایسوسی ایشن (آباد) کے چیئرمین محسن شیخانی اس مسئلے پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ “ کراچی میں غریب عوام کی رہائشی تعمیرات کو گرادیا جاتا ہے لیکن بنی گالہ اور بحریہ ٹاؤن جیسے منصوبوں کو ریگولائز کردیا جاتا ہے۔ قانون سب کے لئے برابر ہونا چاہئیے“
تعمیراتی منصوبے منظور کرنے کا ادارہ
اس مسئلے سے نمٹنے کا حل بھی انھوں نے پیش کیا کہ ایک ایسا ادارہ بنایا جائے جو منصوبوں کی پوری جانچ پڑتال کے بعد منظوری دے تاکہ تجاوزات سے بچا جاسکے۔ شہر میں تعمیرات کے لئے ایک ہی پالیسی بنائی جائے اور پھر جو مسائل سامنے آئیں ان کا ذمہ دار بلڈرز یا مکینوں کو قرار دے کر غریبوں کا استحصال کرنے کے بجائے ادارے کو ذمہ دار ٹہرا کر اسی سے پوچھ گچھ کی جائے۔