دنیا میں والدین ہی تو انسان کی سب سے بڑی خوشی ہوتے ہیں اگر انسان اپنے والدین سے ہی نہ مل پائے تو اس کے کیا جذبات ہوں گے، آئیے آپکو بتاتے ہیں۔
ہوا کچھ یوں کہ یمن کا ایک طالبعلم اپنی اعلیٰ تعلیم کیلئے جرمنی چلا آیا اور دل لگا کر میڈیسن کی تعلیم حاصل کرتا رہا۔
یہی نہیں ہر سال اپنی کلاس میں سب سے زیادہ نمبر لیتا رہا جس کے انعام میں اسے کئی مڈلز اور تعریفی اسناد بھی یونیورسٹی کی جانب سے دی گئیں۔
مگر یہاں اس کے دوستوں اور کلاس کے دیگر ساتھیوں نے دیکھی کہ اس 6 سال میں یہ کبھی اپنے گھر نہیں گیا اور کوئی بھی اس سے ملنے نہیں آیا تو سب حیران ہوئے اور ساتھ ہی ساتھ اس بات نے انکی حیرانگی میں مزید اضافہ کر دیا۔
کہ یہ یمنی لڑکا چھٹیوں میں بھی واپس گھر نہیں گیا اور یہیں کام کرتا رہا ۔آخر جب اس نوجوان سے اساتذہ نے حیرت میں پوچھا کہ مسئلہ کیا ہے آپ نے سکوئی ملنے بھی نہیں آتا۔
اور آپ خود بھی نہیں جاتے، کوئی پریشانی ہے کیا ؟ تو لڑکے کی آواز بھر آئی اور کہا کہ میرے گھر والے بہت غریب ہیں اور میں 6 سال میں اب اتنا بھی کما نہیں سکا ہوں۔
کہ اپنے گھر کچھ پیسے بھیج سکوں تو کس منہ سے واپس گھر جاؤں اور سب سے بڑی بات میرے پاس تو گھر جانے کیلئے جہاز کے ٹکٹ کے پیسے بھی نہیں۔
تو بس پھر کیا تھا پوری یونیورسٹی ایک ہو گئی کیا بچے کیا اساتذہ سب نے مل کر اخراجات اٹھائے اور اس لڑکے کے والدین کو یونیورسٹی اس سے ملنے کیلئے بلا لیا۔
مزید یہ کہ اس موقعے پر اس یمنی لڑکے کو بالکل نہیں معلوم تھا کہ پوری یونیورسٹی کے سامنے اسے کیوں یونیورسٹی ہال میں کھڑا کر دیا گیا ہے۔ لیکن جب نوجوان نے اپنے ماں باپ کو سیڑھیوں سے اسکی جانب آتے دیکھا تو فورا ََ گولی کی رفتار سے تیز بھاگا ، ارو پہلے اپنے باپ سے اور پھر ماں سے لپٹ کر گھنٹوں روتا رہا ۔
اب اپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس نوجوان کے ساتھ یہ نیکی کرنی تھی تو اکیلے میں کر دیتے لیکن نہیں اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد یہ تاثر لیا جا رہا ہے کہ یہ عمل اس لیے پوری یونیورسٹی کے سامنے کیا گیا۔
کیوں کہ وہ نوجوان جو والدین کے سامنے زبان چلاتے ہیں انہیں معلوم ہو کہ زندگی میں ماں باپ اللہ پاک کی کتنی بڑی نعمت ہیں۔
سالوں بعد والدین سے اس ملاقات کا منظر دیکھ کر طالبعلم ہوں یا استاد سب کے سب بھی روتے رہے۔