وہ امریکی شہری بننے ہی والے تھے جب ٹرمپ نے اُن کی حلف برداری کی تقریبات منسوخ کیں

صنم ایک دہائی سے زیادہ عرصہ قبل امریکہ آئی تھیں اور برسوں کے طویل انتظار کے بعد وہ آخرِکار امریکی شہریت حاصل کرنے کے بالکل قریب تھیں۔
تصویر
AFP via Getty Images

صنم ایک دہائی سے زیادہ عرصہ قبل امریکہ آئی تھیں اور برسوں کے طویل انتظار کے بعد وہ آخرِکار امریکی شہریت حاصل کرنے کے بالکل قریب تھیں۔

برسوں جاری رہنے والی کاغذی کارروائی، منظوریوں، ٹیسٹ اور سکیورٹی جانچ پڑتال کے بعد وہ اُس آخری مرحلے تک پہنچ چکی تھیں، یعنی اب بس انھیں اُس تقریب میں شرکت کرنی تھی جس میں تارکین وطن کو امریکی شہریت کے سرٹیفیکیٹ دیے جاتے ہیں۔

لیکن پھر اُس تقریب میں امریکی شہریت کا حلف لینے سے صرف دو دن پہلے، امریکی حکومت نے اچانک سب کچھ منسوخ کر دیا۔

ایران سے تعلق رکھنے والی صنم پہلے تو حیران اور الجھن کا شکار ہوئیں کیونکہ انھیں اس حوالے سے کوئی وضاحت نہیں دی گئی تھی۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھیں کہ تقریب کیوں منسوخ کی گئی جبکہ انھوں نے کچھ غلط بھی نہیں کیا تھا۔

بعد میں، انھیں معلوم ہوا کہ یہ اُن کی جائے پیدائش (ایران) کی وجہ سے تھا، اور پھر غم اور مایوسی اُن کے دل میں سرایت کرنے لگی۔

صنم کا کہنا ہے کہ ’کئی سال گزر گئے ہیں اور میں اب بہت تھکن محسوس کر رہی ہوں اور سوچ رہی ہو کہ کیا میں اس عمل کو جاری رکھ سکتی ہوں کیونکہ یہ بہت مشکل عمل رہا ہے۔‘

’یہ بہت دل توڑ دینے والی بات ہے۔‘

تصویر
Getty Images

صنم، جو انتقامی کارروائی کے خوف سے اپنا اصل نام ظاہر نہیں کرنا چاہتیں، اپنے شوہر کے ساتھ اوریگن میں رہتی ہیں۔ اُن کے شوہر کا تعلق کنساس سے ہے اور وہ امریکی شہری ہیں۔

صنم کا معاملہ کئی ایسے معاملوں میں سے ایک ہے۔ دسمبر 2025 کے شروع میں ٹرمپ انتظامیہ نے اُن 19 ممالک کے تارکین وطن کی شہریت کی تقریبات منسوخ کرنا شروع کر دی تھیں جو پہلے ہی امریکہ کی جانب سے سفری پابندیوں کا شکار ہیں اور اُن ممالک میں ایران بھی شامل ہے۔

اس متنازع فیصلے نے صنم جیسے قانونی طور پر امریکہ میں مستقل رہائش رکھنے والے افراد کو، جو پہلے ہی امریکی شہریت کے ہر مرحلے سے گزر چکے تھے اور صرف آخری رسمی کارروائی کے منتظر تھے، غیر معینہ مدت کے لیے غیریقینی کا شکار کر دیا ہے۔

صنم کے مطابق ’ایسا لگتا ہے کہ ہماری زندگی ایک غیریقینی کیفیت کا شکار ہے اورغیر مستحکم ہے۔‘ اُن کا مزید کہنا تھا کہ وہ اور اُن کے شوہر محسوس کرتے ہیں کہ وہ ’حکومتی فیصلوں کے رحم و کرم پر ہیں۔‘

اس تجربے نے صنم کو یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ کیا امریکہ میں رہنا فائدہ مند ہے بھی یا نہیں۔ اُن کا خاندان ابھی بھی ایران میں ہے، جس میں اُن کے بوڑھے والدین بھی شامل ہیں، اور وہ نہیں جانتیں کہ وہ انھیں دوبارہ کب دیکھ سکیں گی۔

انھوں نے کہا کہ ’اس وقت میرے لیے پُرامید رہنا مشکل ہو رہا ہے۔‘

’یہ واقعی ایک خوفناک وقت ہے اور بدقسمتی سے بہت سے لوگ اس سے گزر رہے ہیں۔ یہ خوشی اور اپنے خاندان کے ساتھ ملنے کا موسم ہونا چاہیے تھا۔‘

پابندی کا شکار 19 ممالک

تصویر
AFP via Getty Images

امریکی شہریت کی حلف برداری کی تقریبات کی منسوخی ٹرمپ انتظامیہ کی امیگریشن قوانین کو سخت کرنے کی تازہ ترین کوششوں کا صرف ایک حصہ ہے۔ سفری پابندیوں کا شکار 19 ممالک سے آنے والے تارکین وطن کی امیگریشن کی کارروائیاں چاہے وہ کسی بھی مرحلے پر تھیں، روک دی گئی ہیں۔

یہ اقدام اور اس جیسے دیگر اقدامات اس وقت سامنے آئے جب ایک افغان شہری نے 26 نومبر کو واشنگٹن ڈی سی میں نیشنل گارڈز کے ارکان پر فائرنگ کی۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اس واقعے کو امیگریشن کو کم کرنے کی کئی نئی کوششوں کے جواز کے طور پر استعمال کیا ہے، جن میں دارالحکومت میں مزید 500 نیشنل گارڈز بھیجنا، کام کے ویزا کی مدت کو پانچ سال سے کم کر کے 18 ماہ کرنا، پناہ کی درخواستوں پر فیصلہ سازی کا عمل معطل کرنا شامل ہیں۔

امریکی شہریت اور امیگریشن سروسز نے کہا ہے کہ یہ پابندیاں قومی سلامتی، امریکی عوام کی جانوں کے تحفظ اور عوامی سلامتی کے لیے ضروری ہیں۔

تاہم تارکین وطن کے حقوق کی تنظیموں کی نمائندگی کرنے والی ایک غیرمنافع بخش تنظیم ’نیویارک امیگریشن کوالیشن‘ کے نائب صدر برائے پالیسی ماریو بروزون کا کہنا ہے کہ یہ پابندیاں تحفظ کے محتاج تارکین وطن کو خطرناک حالات کا شکار کر رہی ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا ’سادہ اور واضح طور پر غیر معینہ مدت تک تعطل ایک پابندی ہی ہے اور وہ ڈی سی میں حالیہ فائرنگ کو تارکین وطن اور پناہ گزینوں پر حملوں میں اضافے کے بہانے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔‘

وینزویلا سے تعلق رکھنے والے ایک تارک وطن، خورخے (فرضی نام)، بھی امریکی شہریت حاصل کرنے کے قریب تھے جب اچانک حلف برداری کی تقریب کے انعقاد سے 24 گھنٹے سے بھی کم وقت قبل بغیر کسی وضاحت کے اس تقریب کو منسوخ کر دیا گیا۔

’میں اپنے بیٹے کے ساتھ تقریب میں شرکت کے لیے بالکل تیار تھا۔ پھر بغیر کسی واضح وجہ کے اسے منسوخ کر دیا گیا اور ہمیں اگلے اقدامات کے بارے میں کوئی وضاحت بھی نہیں دی گئی۔‘

بی بی سی نے خورخے کی شناخت اور فراہم کردہ معلومات کی تصدیق کی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ انھوں نے سنہ 2017 میں ’غیر معمولی صلاحیت‘ کی کیٹگری کے ذریعے مستقل رہائش حاصل کی، جو اُن کے شعبے میں اعلیٰ درجے کے پیشہ ور افراد کے لیے مخصوص ہے۔

انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ٹرمپ انتظامیہ کے اس فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں کہ تارکین وطن کے معاملات کا ’سخت جائزہ‘ لیا جانا چاہیے۔ وہ بائیڈن انتظامیہ کو اس بات کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں کہ اس نے بہت زیادہ تارکین وطن کو ملک میں داخل ہونے دیا۔

خورخے نے مزید کہا کہ اگر وہ ووٹ دے سکتے تو وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہی حمایت کرتے۔

انھوں نے کہا کہ جو چیز انھیں پریشان کرتی ہے وہ یہ ہے کہ طویل مدتی رہائشی جن کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے، اب انھیں ایسے لوگوں کے ساتھ شمار کیا جا رہا ہے جن کے بارے میں اُن کے خیال میں سخت جانچ پڑتال کی ضرورت ہے۔

’میں صرف چاہتا ہوں کہ ہم میں سے جو لوگ قوانین و ضوابط کی پیروی کرتے ہیں، ان کے معاملات آگے بڑھ سکیں اور جنھوں نے دھوکہ دہی یا جرائم کیے ہیں انھیں مناسب قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے۔‘

نیویارک امیگریشن کوالیشن کے ماریو بروزون کا کہنا ہے کہ 19 ممالک کے بہت سے تارکین وطن، جن میں پناہ گزین ہوں یا صنم اور خورخے جیسے قانوناً مستقل رہائش رکھنے والے، پہلے ہی سخت جانچ پڑتال سے گزر چکے ہیں جو کئی سال لیتی ہے اور اس میں سکیورٹی اور صحت کی کئی سطح پر جانچ پڑتال کی گئی ہے۔

نیویارک امیگریشن کوالیشن کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق صرف ریاست نیویارک میں سنہ 2023 میں تقریبا 132,000 ایسے افراد قیام پذیر تھے جو وینزویلا سے تعلق رکھتے ہیں۔

ماریو بروزون کے مطابق اس تعطل نے امیگریشن کے ہر مرحلے پر لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کیا ہے، جس کی وجہ سے وہ ’بہت زیادہ غیریقینی صورتحال میں‘ انتظار کر رہے ہیں۔

صنم کے شوہر نے، جنھوں نے انتقامی کارروائی کے خوف سے اپنا نام ظاہر نہیں کیا، بی بی سی کو بتایا کہ واقعات کی ٹائم لائن حیران کن محسوس ہوتی ہے۔

’اگر ان نیشنل گارڈز پر حملہ نہ ہوتا، تو اس ہفتے (میری بیوی) امریکی شہری ہوتیں۔‘

’آپ کا ذہن تھوڑا سا ہل جاتا ہے کہ ان تمام پالیسیوں میں تبدیلی کا طریقہ کتنی جلدی آ گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ انتظامیہ نے اس معاملے میں ایک اچھے بحران کو ضائع نہیں ہونے دیا۔ اور اس صورتحال کا سامنا کرنا کافی مشکل ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US