’ایسا لگ رہا تھا فائرنگ کبھی نہیں رُکے گی‘: بونڈائی کے ساحل پر عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟

مارکوس کاروالیو نامی عینی شاہد کا مزید کہنا تھا کہ جیسے ہی لوگوں کو حقیقت کا اندازہ ہوا ’سب دوڑنے لگے۔ میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ 10 لاکھ سالوں کے دوران بھی بونڈائی ساحل پر ایسا واقعہ ہو سکتا ہے۔‘

’پہلے لگا کہ آتشبازی ہو رہی ہے۔۔۔ میں نے حملہ آور کو نہیں دیکھا تھا لیکن پھر احساس ہوا کہ بہت قریب سے گولیاں چلائی جا رہی ہیں۔۔ پھر میں چلایا کہ بھاگو۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا کہ یہ کبھی نہ ختم ہونے والی تڑتڑاہٹ ہے۔‘

’سب ایک دوسرے کو دھکیل رہے تھے، کوئی ترتیب نہیں تھی اور ہم بس دوڑتے چلے گئے۔‘

یہ الفاظ نکو اور ولیم نامی عینی شاہدین کے ہیں، جو آسٹریلیا کے بونڈائی ساحل پر اتوار کو یہودی کمیونٹی پر ہونے والے’دہشت گردانہ‘ حملے کی ہولناکی بیان کر رہے تھے۔

آسٹریلوی حکام کے مطابق اس واقعے میں اب تک 11 شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔

حکام کے مطابق دو حملہ آوروں میں سے ایک ہلاک ہو چکا ہے جبکہ دوسرا ’شدید زخمی حالت میں ہسپتال میں زیرِ علاج‘ ہے۔

پولیس کمشنر میل لینین نے اس واقعے کو باضابطہ طور پر ’دہشت گردی کا واقعہ‘ قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق حملے والی جگہ پر ایک ہزار سے زائد افراد موجود تھے، جن میں سے کئی یہودی حنوکا کا جشن منا رہے تھے۔

ایک اور عینی شاہد برطانوی شہری فن گرین نے یہ منظر جائے وقوعہ کے قریب ایک اپارٹمنٹ سے دیکھا۔

بی بی سی کی کیٹی واٹسن سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’فائرنگ کی آوازیں سنتے ہی میں کھڑکی کی جانب بڑھا۔۔۔ سفید کار کے اُوپر موجود ایک شخص گولیاں چلا رہا تھا۔۔ میں نے حملہ آور کو لوگوں کو گولیاں مارتے دیکھا۔ کچھ لوگ چیختے ہوئے میرے اپارٹمنٹ کی جانب بڑھ رہے تھے۔‘

گرین کا کہنا ہے کہ ’میں نے اپنے بلائنڈز بند کیے اور الماری میں چھپ گیا۔‘

تصویر
Getty Images

’وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ بونڈائی میں ایسا ہو سکتا ہے‘

بونڈائی کے ساحل پر ایک دن گزارنے کے بعد اپنا سامان سمیٹ کر واپس جانے کی تیاری کرنے والے ایک عینی شاہد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ بونڈی میں ایسا کوئی واقعہ پیش آ سکتا ہے۔‘

مارکوس کاروالیو نامی عینی شاہد کا مزید کہنا تھا کہ جیسے ہی لوگوں کو حقیقت کا اندازہ ہوا ’سب دوڑنے لگے۔ میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ 10 لاکھ سالوں کے دوران بھی بونڈائی ساحل پر ایسا واقعہ ہو سکتا ہے۔‘

مارکوس کاروالیو کے مطابق ’میں اپنی جان بچانے کے لیے نارتھ بونڈائی کے ایک گھاس والے ٹیلے کی طرف دوڑنے لگا، پھر چند افراد کے ساتھ ایک آئس کریم وین کے پیچھے چھپ گیا۔‘

ایمرجنسی سروسز کے پہنچنے اور فائرنگ رکنے کے بعد انھوں نے گھر جانے کی کوشش کی لیکن اس مقام سے گزرتے ہوئے دیکھا کہ ’لاشیں زمین پر بکھری پڑی تھیں۔‘

’میرے خاندان کے کئی افراد اور دوست بھی مرنے والوں میں شامل ہیں‘

آسٹریلیا میں یہودی کمیونٹی کی نمائندہ تنظیم ’آسٹریلین جیوری‘ کی ایگزیکٹو کونسل کے عہدے دار الیکس راؤچن کا کہنا ہے کہ مرنے والوں میں اُن کے خاندان کے افراد اور دوست بھی شامل ہیں۔

بی بی سی ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’ہلاک ہونے والوں میں میرا ایک پیارا دوست بھی شامل ہے جو ایک ماہ قبل ہی والد بنے تھے۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ ’میرا دوست، انتہائی ہنس مکھ اور خوبصورت شخصیت کا مالک تھا۔۔اب اس کا بیٹا، جو صرف ایک ماہ قبل پیدا ہوا ہے، بغیر باپ کے پرورش پائے گا۔‘

راؤچن کہتے ہیں کہ جائے وقوعہ کے قریب اُنھیں ایک چار سالہ بچی بھی ملی، جس نے اپنے چہرے پر شیرنی کی پینٹنگ کی ہوئی تھی اور یہ اپنے والدین سے بچھڑ گئی تھی۔

اُن کے بقول ہمیں خدشہ تھا کہ شاید اس نے اپنے والدین کو کھو دیا ہے، لیکن بہت جلد ہم بچی کو اس کے والدین تک پہنچانے میں کامیاب ہو گئے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ حملہ آوروں نے اس معصوم بچی اور اس جیسے دیگر لوگوں کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔

تصویر
Getty Images

علاقے میں ویرانی، لوگ گھروں میں محصور

مقامی افراد کے مطابق یہ واقعہ شمالی بونڈائی کے اس پرسکون علاقے میں ہوا ہے، جس کا شمار خاندانوں کے لیے تفریح کے بہترین ساحلوں میں ہوتا ہے۔

بہت سے خاندان اپنے بچوں کے ہمراہ اس علاقے میں رہتے ہیں جبکہ نوجوان جوڑوں کے لیے بھی یہ رہائش کے لیے پسندیدہ جگہ ہے۔

یہودیوں کی حنوکا کی تقریب کھیل کے ایک بڑے میدان کے بالکل ساتھ سبزے پر منعقد ہو رہی تھی اور سڑک کے بالکل پار ایک پرائمری سکول بھی ہے۔

چند گھنٹے قبل علاقے کی سڑکیں ہزاروں لوگوں سے بھری ہوئی تھیں، جوان اور بوڑھے، دھوپ کے موسم سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ لیکن اب یہاں سناٹے کا راج ہے۔

پولیس کی کچھ گاڑیوں کے علاوہ پورا علاقہ سنسان ہے اور خوف کے باعث لوگ صرف گھروں تک محصور ہیں۔

getty
Getty Images

بی بی سی نے ایک صحافی ڈینی کلیٹن سے بات کی ہے جو ساحل سمندر پر تھے اور بونڈائی پویلین سے ہونے والے واقعات کا مشاہدہ کر رہے تھے۔

کلیٹن کے ذریعہ شیئر کی گئی ایک ویڈیو میں پولیس اہلکاروں کو حملہ آوروں پر فائرنگ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

ایک پولیس افسر ساحل کے قریب موجود لوگوں کو دیوار کے پیچھے چھپنے کا کہہ رہا ہے۔

کلیٹن کہتے ہیں کہ وہ اب بھی یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہوا کیا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’جب میں نے فائرنگ کی آواز سنی تو خوف و ہراس پھیل گیا۔ لوگ وہاں سے نکل رہے تھے اور اس دوران عجلت میں گاڑیوں کو آپس میں ٹکراتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔‘

کلیٹن کہتے ہیں کہ وہاں دو بندوق بردار موجود تھے اور وہ لوگوں کے ایک گروپ پر گولیاں چلا رہے تھے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US