“میرے بچوں کی جان میرے سامنے لی گئی میں نے ان کو خدا کے واسطے دئیے لیکن میری کوئی بات کوئی دہائی نہیں سنی گئی“
یہ دل چیر دینے والے الفاظ ایک دکھی ماں کے ہیں جن کا تعلق صوبہ بلوچستان کے ضلع ژوب سے ہے۔ خاتون کا الزام ہے کہ ان کے دو کم عمر بیٹوں جن کی عمریں 12 انور 15 سال تھیں انھیں پولیس نے کوئی جرم بتائے بغیر قتل کیا ہے جبکہ نہ تو انھیں ان کے بچوں کا قصور پتہ تھا نہ ہی ان پر کسی قسم کا کوئی کیس چل رہا تھا۔
واقعے میں مزید لوگ زخمی ہوئے
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اس واقعے میں ان دو لڑکوں کے علاوہ ان کے ایف ایس سی میں پڑھتے چچازاد بھائی نواب خان اور ان کے دو ملازم شریف خان اور حسن خان بھی شامل تھے جن کی عمریں بھی 12 سے پندرہ سال کے درمیان تھیں جبکہ کچھ نوجوان اسے واقعے میں شدید زخمی بھی ہوئے ہیں۔ بی بی سی کا کہنا ہے کہ ادارے نے واقعات کی تفصیل اور قتل کے الزام پر پولیس کا موقف جاننے کے لئے ان سے رابطہ کیا جس کا انھیں کوئی جواب نہیں ملا۔
زمین کے معاملے پر قبیلوں میں لڑائی
قتل ہونے والے انور خان کے چچازاد بھائی سردار ولی خان کاکڑ کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان کے ایک دوسرے خاندان سے زمین کے معاملے پر پرانی رنجش ہے۔ سردار ولی خان نے بی بی سی کو بتایا کہ “جب قبیلوں کی رنجش کی وجہ سے چھاپے اور گرفتاری ہوتی ہے تو جن پر کیس ہو وہ افراد پہاڑوں میں جاکر چھپ جاتے ہیں اور جن پر کیس نہیں ہوتا وہ گھر پر رہتے ہیں انھیں کوئی کچھ نہیں کہتا لیکن اس رات ایسا نہیں ہوا“
مقدمات نہیں تھے لیکن عدالت لے جاتے تو اعتراض نہ ہوتا
سردار ولی خان نے مزید کہا کہ اگر ہمارے خلاف مقدمات ہیں تو ہمیں عدالت میں پیش کیا جائے مقدمات چلائے جائیں ناکہ اس طرح قتل کیا جائے۔ جن بچوں کی جان لی گئی ہے ان پر کوئی مقدمہ نہیں تھا لیکن اگر انھیں بھی عدالت لے جایا جاتا تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوتا لیکن ان کی جان کوئی وجہ بتائے بغیر لی گئی۔
لڑکوں کو یقین تھا کہ انھیں چھوڑ دیا جائے گا
اس افسوسناک واقعے میں جانے سے جانے والے نوجوانوں کے رشتے داروں کا کہنا ہے کہ لڑکوں نے حراست میں ہونے کے باجود کوئی مزاحمت نہیں کی کیوں کہ انھیں یقین تھا کہ وہ بے قصور ہیں اور انھیں چھوڑ دیا جائے گا۔ جبکہ کچھ نے کہا ان کے ہاتھو پر ہتھکڑیاں تھیں تو وہ کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے لیکن ارد گرد کے کسی بھی شخص کو ان لڑکوں کے ساتھ اس سلوک کی وجہ نہیں معلوم۔
ماں کو شوق تھا کہ بیٹا پڑھ لکھ جائے
انور خان کی والدہ کہتی ہیں کہ انھیں شوق تھا کہ ان کا ایک بیٹا خوب پڑھے لیکن اس کو بھی مار دیا گیا۔ اب وہ صرف انصان چاہتی ہیں۔ وزیرِ اعلیٰ بلوچستان نے واقعہ لا نوٹس لے کر واقعے کی رپورٹ پیش کرنے اور فوری کارروائی کرنے کا حکم دیا ہے۔