کامیابی انسان کو محنت سے ملتی ہے۔ آپ جو چاہیں وہ کر سکتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ آپ کو محنت لازمی کرنی ہوگی۔ محنت سے آپ کی زندگی میں کروڑوں کی دولت بھی آسکتی ہے۔ لیکن اگر آپ محنت کرنے کے شوقین نہیں ہیں تو پھر عیش و آسائش کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے ہیں۔ ہم آپ کو بتانے جا رہے ہیں کراچی کے ایک ایسے نوجوان کی کہانی جو ایک سرکاری نوکری کرنے والے باپ کی اولاد ہیں۔ ان کے والد سندھ کے ایک بڑے محکمے میں کام کرتے تھے لیکن کبھی بھی ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا۔ یہ ہیں کراچی کے محمد ظہور جو اپنے ایک انٹرویو میں بتاے ہیں کہ:
مجھے اگر ایک چارپائی مل جائے، ایک روٹی مل جائے اور اس کے ساتھ کھانے کو کوئی سالن مل جائے تو میں خوش رہوں گا۔ مجھے زندہ رہنے کے لیے کسی قسم کی عیاشی کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ حالانکہ ہماری زندگی بہت رنگین ہے اور یوکرین میں ہماری جو محفلیں ہوتی ہیں ان کا کوئی جواب ہی نہیں۔ سڑک پر آ کر لوگ ہمارے ساتھ سیلفیاں لے رہے ہوتے ہیں۔ کئی لوگ آ کر کہتے ہیں ہم آپ سے بہت متاثر ہیں۔
پاکستان کے ارب پتی شخص محمد ظہور جنھیں ’کیئو کا شہزادہ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ دنیا ان کو سٹیل کنگ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔

ان کی بیوی
2008 میں مِسز ورلڈ کا ٹائٹل جیت چکی ہیں اور یوکرین کی مشہور گلوکارہ بھی ہیں۔
محمد ظہور یوکرین کے صدر اور وزیراعظم کے ساتھ قریبی تعلقات بھی ہیں۔ انہوں نے دو شادیاں کیں ہیں۔ ان کی پہلی بیوی پاکستان میں فلاحی کام بھی کرتی ہیں۔ ان کی پہلی بیوی سے ایک بیٹی ہے جو شادی شدہ ہے جس کی دو بٹییاں ہیں
اور دوسری بیوی سے دو جڑواں بیٹیاں ہیں۔
محمد ظہور کراچی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد خوشحال خان کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ کے گاؤں ’حسنینہ‘ سے ہے۔ خوشحال خان قیام پاکستان سے پہلے ہی کراچی آگئے تھے۔ محمد ظہور کہتے ہیں کہ میری کامیابی میں والد کی تربیت، ماں کی دعاؤں اور اللہ کی مرضی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔
ہم کراچی میں رہتے تھے اور اس وقت ہمیں یہ بات اچھی نہیں لگتی تھی کہ ہمارے ابو کی سرکاری دفتر میں نوکری ہونے کے باوجود ہماری زندگی اوروں کی طرح شاہانہ نہیں تھی۔ میرے والد سندھ کے ڈپٹی اکاؤنٹنٹ جنرل تھے۔ 1974 میں سویت یونین میں انجینیئرنگ کی تعلیم کے لیے سکالرشپ ملی اس وقت میں کراچی کی این ای ڈی یونیورسٹی میں انجینیرئنگ میں پہلے سال میں طالبعلم تھا۔

سکالرشپ کے لیے 42 بچوں میں چند کو سینٹ پیٹرس برگ، کچھ کو ماسکو اور بعض کو ڈونیسک بھیجا گیا جن میں ایک میں بھی تھا۔
ڈونیسک میں گزارے طالب علمی کے دنوں کا ذکر کرتے ہوئے اُن کے چہرے پر مسکراہٹ آ جاتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں
اسی دوران میں نے اپنی کلاس میٹ سے شادی کر لی تھی جو بعد میں میرے ساتھ پاکستان جا کر رہیں بھی۔ اس سکالرشپ کی شرط یہ تھی کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد 5 سال پاکستان سٹیل مل میں کام کرنا ہو گا۔ واپس جا کر انہوں نے سٹیل مل میں کام کیا۔ خوب محنت اور لگن سے مقام بنایا۔
لیکن پھر سٹیل مل سے استعفیٰ دے دیا۔ اتفاق سے ماسکو میں ایک کمپنی کو ایک ایسے شخص کی ضرورت تھی جو پاکستان کے ساتھ کاروبار میں اُن کی مدد کر سکے اور روسی زبان بھی جانتا ہو۔ چونکہ میں جانتا تھا لہذا میں نے دوبارہ ماسکو جانے کو ضروری سمجھا۔
اس کاروبار میں اُن کی کمپنی نے پاکستان کو سٹیل بھجوانا شروع کر دیا لیکن اس فروخت کے بدلے پاکستان سے ادائیگی نقد پیسوں کے بجائے کپڑوں کی صورت میں ہوتی تھی۔ 3 سال کے اندر میری تنخواہ ایک ہزار سے بڑھ کر اور بونس ملا کر 50 ہزار ڈالر ہو گئی تھی۔ پھر میں نے اپنا خود کا کاروبار
شروع کرنے کا سوچا۔
اس وقت میں نے تھائی لینڈ کے ایک کاروباری شخصیت کے ساتھ مل کر ایک کمپنی کی بنیاد رکھی جس میں 51 فیصد شیئر اس کے اور 49 فیصد میرے تھے۔‘
اور اس طرح میرا سٹیل کی دنیا پر راج کرنے کے سفر کا آغاز ہوا۔ آہستہ آہستہ یورپ اور پھر دنیا بھر میں دفاتر کھلنے لگے۔
1996 میں ڈونیسک کی اسی سٹیل مل کو خرید لیا جہاں میں نے تعلیم کے دوران اپنا آخری پریکٹیکل مکمل کر کے ڈگری حاصل کی تھی۔

میں ڈونیسک سٹیل مل کا مالک ضرور بن گیا۔ لیکن اس کی حالت انتہائی خستہ ہو چکی تھی۔ ’اس کو ہم نے بنانا شروع کر دیا تھا۔ ہم نے جدید ترین اور انتہائی شاندار مل بنائی
۔
لیکن جب اولمپک کے میچز شروع ہوئے تو چائنا نے دنیا بھر سے اسٹیل خریدنا شروع کی اس وقت مجھے احساس ہوا کہ تھوڑے ہی وقت میں چائنہ تمام تر سٹیل کی مل اپنے ملک میں بنانے والی ہے۔
لہذا میں نے سوچا کہ اب یہ سب کچھ بیچ دوں میرا فیصلہ صحیح ثابت ہوا اور یوں میں نے اپنی سٹیل ملز بیچ دیں۔
اس طرح ظہور سٹیل مل کے کنگ مانے گئے۔ آج دنیا بھر میں ان کا خوب چرچا ہے۔ اس وقت ظہور لندن میں مقیم ہیں۔