دنیا میں ایسی کئی معلومات ہیں جو کہ سب کو حیرت میں مبتلا کر دیتی ہیں، لیکن کچھ ایسی ہوتی ہیں جس کے بارے میں بہت سے لوگ جاننا چاہتے ہیں۔
ہماری ویب ڈاٹ کام کی اس خبر میں آپ کو اسی حوالے سے بتائیں گے۔
پاکستان اور بھارت کے بننے سے پہلے اس خطے کو ہند کا نام دیا جاتا تھا، جہاں کئی ایسی ہستیاں گزری ہیں جنہوں نے اسلام کے لیے بے شمار گراں قدر خدمات پیش کی ہیں۔
انہی میں سے ایک حیدرآباد کے نظام تھے جنہوں نے مسجد نبوی کے لیے بجلی کا پلانٹ بنوایا تھا، کیونکہ وہاں موجود پلانٹ کمزور پڑتا جا رہا تھا اور کام کرنا بند کر رہا تھا۔
ایسے میں ہند کے ایک رہنما نے اپنی خدمات پیش کیں، خط کے ذریعے حیدرآباد کے نظام میر عثمان علی خان نے سعودی عرب کو اپنی خدمات پیش کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ساتھ ہی ایک نیا پلانٹ وقف کرنے کی خواہش کی۔
جسے قبول کر لیا گیا، یوں اس طرح ہند کے رہنما میر عثمان علی خان نے 1939 میں مسجد نبوی میں بجلی کا پلانٹ لگوایا، جہاں سے مسجد نبوی کو مسجد مہیا کیے جانے لگی۔ میر عثمان کی جانب سے پلانٹ کے علاوہ حیدرآباد پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ کے چیف انجینئر نواب احسن یار جنگ کو بھی مدینہ بھیجنے کا تجویز دی جو کہ اس پلانٹ کی دیکھ بھال پر معمور ہوں گے، اور اس پلانٹ کی ماہانہ مینٹیننس کے حوالے سے دیکھیں گے۔
ساتھ ہی نظام حیدرآباد نے جنت البقیع میں موجود اعلیٰ ہستیوں جن میں امہات المؤمنین، صحابہ کرام اور دیگر کی قبر مبارک کی دیکھ بھال کے لیے بھی تجویز دی، جبکہ آقائے دو جہاں ﷺ کے چچا حضرت حمزہ کی قبر مبارک کی تزئین آرائش کے لیے بھی تجویز دی۔
جبکہ مدینہ میں ہی واقع جنت المولا قبرستان کی دیواروں کی مرمت اور گیٹس کی تنصیب میں بھی نظام حیدرآباد نے خاص توجہ دی۔