جب بھی کسی انسان کو کوئی تکلیف ہوتی ہے تو وہ فورا علاج کے لیے ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے، ڈاکٹرز میڈیکل سائنس کے اصولوں کے مطابق اس کا علاج کرتے ہیں اور بیماریوں کی شدت اگر زیادہ ہو اور انسانی زندگی کو بچانا ہو تو بعض اوقات سرجری بھی کرنا پڑتی ہے اور انسان کو آپریشن جیسے تکلیف دہ عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ لیکن اگر ڈاکٹر خود بیمار ہوجائے اور اس کے علاج کے لیے کوئی دوسرا ڈاکٹر موجود نہ ہو تو اس کو اپنا علاج خود ہی کرنا پڑتاہے ساتھ ہی اپنے لیے ادویات خود تجویز کرنی پڑی ہیں۔
علاج تک معاملہ سمجھ میں آتا ہے مگر کسی ڈاکٹر نے اپنا آپریشن خود کیا ہو آپ کو یہ بات یقینا ناقابل یقین لگے گی لیکن یہ ایک حقیقت ہے جس کے بارے میں لوگ نہیں جانتے ہوں گے۔ آج آپ کو ایک ایسے سرجن کے بارے میں بتانے جا رہے ہیں جس نے اپنی جان بچانے کے لیے اپنی کامیاب سرجری خود کرکے جان بچائی۔
یہ واقعہ سن 1960 کا ہے جب روس نے اپنی بارہ رکنی ٹیم براعظم انٹارکٹیکا کے سخت ترین موسمی حالات میں بھیجی۔ اور اس ٹیم کا مقصد انٹارکٹیکا میں ایک بیس کو قائم کرنا تھا اور اس حوالے سے تحقیات کرنی تھیں۔ براعظم انٹارکٹیکا 80 فیصد برف سے ڈھکا ہے جو دنیا کا سرد اور خشک ترین مقام ہے جس کی وجہ سے وہاں کوئی مستقل زندگی نہیں گزار سکتا۔
یہ ڈاکٹرز کی ٹیم کا ایک سالہ ٹرپ تھا جس کے لیے انہوں نے 300 دن تک بحری جہاز پر سفر کر کے اور وہاں پہنچ کر ان کو واپس لینے کے لیے ایک سال سے پہلے کسی ٹیم کی آمد ممکن نہ تھی۔ اس ٹیم کا ایک رکن ڈاکٹر لیونڈ روگوزو تھا جس کو بطور ڈاکٹر ٹیم کا حصہ بنایا گیا تھا۔ 28 سالہ ڈاکٹر لیونڈ روگوزو کو انٹارکٹیکا کے سرد ترین موسم کے باعث سستی اور تھکن کی شکایت ہوئی جو وقت کے ساتھ پیٹ کے دائیں جانب شدید درد اور الٹی میں تبدیل ہوگیا۔
29 اپریل 1961 کی صبح درد کی شدت اور ظاہری علامات سے ڈاکٹر کو اندازہ ہوگیا کہ انہیں اپنڈکس کا مرض ہوگیا ہے جس کا علاج سرجری کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ اگر اپنڈکس کی فوری سرجری نہ کی جاتی تو وہ پھٹنے کے باعث اس کا زہر جسم میں پھیل جاتا اور ڈاکٹر مر جاتا۔
وہاں نہ کوئی اسپتال موجود تھا نہ کوئی دوسرے ممالک کے ریسرچ اسٹیشنز کے پاس طیارہ دستیاب نہ تھا۔ اپنڈکس انسانی جسم میں بڑی آنت سے جڑی ایک ٹیوب ہوتی ہے جس کی لمبائی دو سے تین انچ تک ہوتی ہے۔ ڈاکٹر لیونڈ روگوزو کے پاس کوئی چارہ نہ تھا لیکن پھر اس نے وہ فیصلہ کیا جسے میڈیکل سائنس ایک معجزہ بھی تصور ہے۔ ڈاکٹر لیونڈ نے اپنی ٹیم کے 2 افراد کو اپنے اسسٹنٹ کے طور پر منتخب کیا اور اپنا آپریشن خود کرنے کا فیصلہ کیا۔
ڈاکٹر نے آپریشن کرتے وقت اپنے سامنے ایک آئنہ لگایا تاکہ وہ سرجری کو کرتے ہوئے دیکھ سکیں اور اپنا آپریشن خود کرنا شروع کر دیا۔ ویسے تو آپریشن کے لیے مریض کو بے ہوش کرنا ہوتا ہے مگر لیونڈ روگوزو نے صرف سرجری والی جگہ کو سُن کیا۔
آئينے میں عکس دیکھ کر آپریشن کے دوران سب سے بڑا مسئلہ دائیں اور بائيں کے فرق کا تھا۔ اس کے ساتھ شدید درد کے سبب لیونڈ کو بار بار سرجری کے لیے تھوڑا بریک لینا پڑتا تھا۔ڈاکٹر کے منتخب کردہ ٹیم کے اسسٹنٹ اس کو اوزار پہنچا رہے تھے اور اس کے ساتھ روشنی کا بھی انتظام کر رہے تھے-
کچھ دیر کے بعد سب سے اہم مرحلہ آنتوں میں سے اپنڈکس کے متاثرہ حصے کو نکال کر اس کو علیحدہ کرنا تھا جب ڈاکٹر سے اس حصے کو نکالا تو اسکی نچلی تہہ سیاہ ہو چکی تھی اور کسی بھی وقت پھٹ سکتی تھی مگر ڈاکٹر لیونڈ کے بہترین فیصلے نے ان کی جان محفوظ بنائی۔ یہ آپریشن تاریخ کا پہلا ایسا آپریشن تھا جسے آج بھی معجزہ قرار دیا جاتا ہے۔