سری لنکا کے صدرراجا پاکسے نے ملک سے فرار ہونے کے بعد اپنا استعفیٰ اسپیکر کو بھجوادیا ہے،ملک میں کئی ماہ سے جاری ہنگامہ آرائی کے بعد رواں ہفتے سری لنکن صدر مالدیپ روانہ ہوگئے تھے۔
معاشی حالات
سری لنکا کے لوگ خوردنی اشیاکی قلت برداشت کر رہے ہیں، ایندھن اور کھانا پکانے کی گیس خریدنے کے لیے گھنٹوں قطار میں کھڑے رہتے ہیں۔ یہ ایک ایسے ملک کے لیے ایک تلخ حقیقت ہے جس کی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی تھی، سری لنکا کے وزیر اعظم وکرما سنگھے بھی ملک میں نئی حکومت کے قیام کے بعد مستعفی ہونے کا فیصلہ کرچکے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ قرضوں سے لدی ہوئی معیشت "تباہ" ہوگئی ہے کیونکہ حکومت کے پاس خوراک، ایندھن اور ادویات کی ادائیگی کے لیے رقم ختم ہو چکی ہے۔سری لنکا بھارت، چین اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی مدد پر انحصار کر رہا ہے۔
بحران کتنا سنگین ہے؟
سری لنکن حکومت 51 بلین ڈالر کی مقروض ہے اور وہ اپنے قرضوں پر سود کی ادائیگی کرنے سے قاصر ہے۔ سیاحت سری لنکا کی اقتصادی ترقی کا ایک اہم انجن ہے لیکن کوروناوائرس اور 2019 میں دہشت گرد کے حملوں کے بعد حفاظت سے متعلق خدشات کی وجہ سے سری لنکن معیشت کا شیرازہ بکھر گیا ہے اور اس کی کرنسی کی قدر 80 فیصد تک گر چکی ہے۔وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ سری لنکا کے پاس قابل استعمال غیر ملکی ذخائر میں صرف 25 ملین ڈالر ہیں جبکہ اگلے 6 ماہ کیلئے 6 بلین ڈالر کی ضرورت ہے، نتیجہ یہ ہے کہ ملک دیوالیہ پن کے دہانے پر ہے جہاں پٹرول، دودھ، کھانا پکانے کی گیس، دوائی اور یہاں تک کہ ٹوائلٹ پیپر درآمد کرنے کے لیے شاید ہی کوئی رقم ہو۔
سری لنکا کا مستقبل
سری لنکا میں جاری معاشی بحران کیلئے حکومت کی آخری امید آئی ایم ایف ہے،حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ بیل آؤٹ پلان پر بات چیت کر رہی ہے اور وزیراعظم وکرما سنگھے نے 22 جون کو کہا تھا کہ وہ جولائی کے آخر تک آئی ایم ایف کے ساتھ ابتدائی معاہدہ کرنے کی توقع رکھتے ہیں لیکن اس کا انحصار ان کے متبادل اور نئی حکومت کے قیام پر بھی ہے۔ سری لنکا کے رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ قانون ساز 20 جولائی کو ایک نئے صدر کا انتخاب کریں گے اور دیکھنا یہ ہے کہ کن شرائط کی بنیاد پر آئی ایم ایف سے قرض لیا جائیگااورنئی آنیوالی حکومت کیسے ملک کو معاشی بحران سے نکالتی ہے۔