عورت کو صنف نازک کہا جاتا ہے لیکن دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ صنف نازک جب صنف آہن بنتی ہے تو بڑی سے بڑی طاقت کو خاطر میں نہیں لاتی، ایسا ہی ایک واقعہ ترکی میں پیش آیا جب 15 جولائی 2016 کو فوج نے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تو ایک نہتی خاتون نے فوج کے سامنے ڈٹ کر پوری قوم کو جگایا۔
ترکی میں رجب طیب اردگان کی حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے رات گئے فوج نے لشکر کشی کی کوشش کی لیکن ترک قوم حکومت کو بچانے کیلئے فوج کے سامنے ڈٹ گئی جن میں صفیہ بیات نامی خاتون بھی شامل تھیں جنہیں بعد ازاں غازیہ کا لقب ملا۔
ترکی میں فوجی بغاوت کے حوالے سے چند روز قبل ایک فلم بھی ریلیز کی گئی جس میں ملک میں فوج کی حکومت الٹنے کی کوشش اور عوام کی مخالفت کا احاطہ کیا گیا ہے، اس موقع پر غازیہ صفیہ بیات بھی ایک بار پھر خبروں کی زینت بن رہی ہیں۔
یاد رہے کہ 15 جولائی 2016کی شب کچھ باغیوں کی سرپرستی میں فوج کے ایک چھوٹے دستے نے رجب طیب اردگان کی حکومت کا تختہ پلٹ کر اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔
ابتدا میں باغی فوجی دستے کی جانب سے کہا گیا کہ ہماری کارروائی کا مقصد ملک میں آئینی و جمہوری انسانی حقوق کی بحالی ہے اور جمہوری قدروں کو استحکام بخشنے کے لیے ہم اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس جزوی بغاوت میں کرنل درجے کے افسران شامل تھے۔
اس گروہ نے استنبول کے فوجی مرکز میں کئی سیاسی رہنماؤں اور ترک فوج کے سربراہ جنرل خلوصی آکار سمیت دیگر جرنیلوں کو یرغمال بنایا گیا تھا تاہم ترک حکومت کے حامی فوجیوں نے اس وقت کارروائی کرتے ہوئے باغی فوجیوں کو پیچھے دھکیلا اور یرغمالیوں کو چھڑا لیا۔
ابتدا میں ایوان صدر اور پارلیمان کا محاصرہ بھی کیا گیا، اتاترک ایئرپورٹ پر تمام پروازیں منسوخ کردی گئیں اور ایئرپورٹ کو بند کر دیا گیا تھا، ملک بھر کے ہوائے اڈے بند کرکے ان پر ٹینک پہنچادیئے گئے تھے۔ اس وقت عوام سے ترک صدر نے سڑکوں پر نکلنے کی اپیل کی جس کے بعد بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ لوگوں نے ٹینکوں پر چڑھ کر ان ٹینکوں کو ایئرپورٹ اور دیگر مقامات میں داخل ہونے سے روکا۔
اس کشیدہ صورت حال میں عام لوگوں پر فائرنگ کے واقعات بھی سامنے آئے جن میں 194 افراد ہلاک ہوئے، مرنے والوں میں سے 94 سے زائد باغی فوجی ٹولے سے تعلق رکھنے والے جبکہ باقی عام شہری اور پولیس تھے۔
ترکی کے وزیر اعظم بن علی یلدرم نے 16 جون کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ بغاوت کو مکمل طور پر کچل دیا گیا ہے اور صورت حال پر اب جمہوری حکومت کو مکمل کنٹرول حاصل ہے۔ اس واقعے کے بعد 25 کرنل اور 5 جنرلز کو بھی عہدوں سے فارغ کر دیے گئے۔