افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد سے جہاں افغان عوام کے لیے معاشی طور پر مشکلات بڑھ گئی ہیں، وہیں اب افغان مائیں اپنے بچوں کو بیچنے پر مجبور ہو گئی ہیں۔
ہماری ویب ڈاٹ کام کی اس خبر میں آپ کو اسی حوالے سے بتائیں گے۔
ڈی ڈبلیو کی جانب سے ایک ایسی ہی مجبور اور افسردہ افغان ماں ماریہ کا انٹرویو کیا گیا تھا، جس میں ماریہ نے تکلیف دہ لمحات کا اظہار کیا۔
افغانستان کے صوبے فریاب سے تعلق رکھنے والی ماریہ نے اپنے دو بچے فروخت کر دیے ہیں، جبکہ ایک بیٹی کو بھی فروخت کر دیا ہے۔ دل پر پتھر رکھ کر ماریہ نے یہ قدم اس وقت اٹھایا جب کھانے کو کچھ نہیں تھا اور وسائل بھی نہیں تھے۔
اس صورتحال میں ماں نے یہ سخت فیصلہ لیا کہ کم از کم بچے تو اس تکلیف سے محفوظ رہیں گے، اگرچہ وہ خود بھوکی پیاسی رہے گی، لیکن بچے کسی دوسرے کے گھر میں ہی سہی، لیکن دو وقت کی روٹی کھا سکیں گے۔
ماریہ کا کہنا تھا کہ میں بچوں کو کھانا نہیں کھلا سکتی نہ ہی ان کے لیے کپڑے خرید سکتی ہوں۔ آنکھوں میں آنسو لیے، تکلیف دہ آواز میں بتایا کہ میں اخراجات بھی پورے نہیں کر پا رہی ہوں۔ اس وقت میرے ساتھ 4 بچے رہتے ہیں۔
افغانستان میں سات سالہ بچی کو 750 یورو یعنی پاکستانی 1 لاکھ 60 ہزار سے زائد روپے میں فروخت کر دی۔
ایک اور افغان شہری عبدل کا کہنا تھا کہ ہم بھوک اور افلاس سے مر رہے ہیں، اس حد تک مجبور ہیں کہ بچے بیچ رہے ہیں۔ میرے 5 بچے ہیں، ایک بچہ بیچ دیا تاکہ دیگر 4 کو کھانا کھلا سکوں، اگر ایسا نہ کرتا تو پانچوں بچے بھوک سے مر جاتے۔
ایک اور افغان شہری نصر نے بتایا کہ میں قرضوں کے بوجھ تلے دب چکا تھا، سات ماہ سے بے روزگار تھا، ایسے میں میں نے اپنی بچی 115 ہزار افغانیز میں بیچی، جو کہ پاکستانی 2 لاکھ سے زائد کی رقم بنتی ہے۔
لیکن جب نصر کی اہلیہ اور بچی کی والدہ کو علم ہوا کہ اس کی بیٹی کو بیچ دیا گیا ہے تو وہ شدید غصہ ہوئی، اگلے 2 سے 3 ماہ تک میں گھر نہیں گیا تھا، لیکن اللہ کا شکر ہے ہم اپنی بچی سے واپس ملے۔