کوما ایک ایسی بیماری ہے جو اچانک کسی بھی انسان کو ایک زندہ بت میں تبدیل کردیتی ہے، اس مرض کا شکار ہونے والے انسان کا جسم اور ذہن مفلوج ہوجاتا ہے اور کوما میں جانے والا انسان بے حس و حرکت بستر سے لگ جاتا ہے۔
کوما کا شکار ہونے والے لاتعداد افراد موت کی گہری وادیوں میں اتر چکے ہیں جبکہ بے شمار ایسے بھی ہیں جو کوما سے واپس نارمل زندگی کی طرف لوٹ چکے ہیں۔ ایسا ہی ایک شخص مارٹن بھی ہے جو 1980 کی دہائی میں کوما میں گیا اور 12 سال بعد صحت یاب ہوا۔ مارٹن نے 12 سال گہری نیند میں بستر پر گزارے اور جب ہوش میں آیا تو دوسروں کے ہوش اڑا دیئے۔
جنوبی افریقہ کا رہائشی مارٹن 1980 کی دہائی کے آخر میں 12 سال کی عمر میں کوما کا شکار ہوا اور 12 سال بے حس و حرکت بستر پر رہا۔ ڈاکٹروں نے مارٹن کی طبی حالت کو دیکھ کر نیم مردہ قرار دیدیا تھا لیکن اس کے والدین نے ہار نہیں مانی اور 12 سال تک صبح شام اپنے بیٹے کی دیکھ بھال کرتے رہے۔
مارٹن کے والد ہر روز صبح 5 بجے اٹھتے، مارٹن کو کپڑے پہناتے اور اسے کیئر سینٹر لے جاتے۔ دن کے اختتام پر وہ اسے غسل دیتے، اسے رات کا کھانا کھلاتے اور اسے بستر پر بٹھاتے۔ اس کے والدین نے مارٹن کے جسم کو حرکت دینے کے لیے ہر دو گھنٹے بعد کا الارم لگایا تاکہ اسے بستر پر زخم نہ آئے۔ 12 سال تک یہ ہی ان کی زندگی تھی۔
آج مارٹن دوبارہ بات کرنے کے قابل ہے، وہ بولنے کے لیے کمپیوٹر استعمال کرتا ہے، اس کا شعور مکمل طور پر واپس آگیا ہے۔ اپنی کتاب گھوسٹ بوائے میں مارٹن نے لکھا کہ مجھے لگتا ہے کہ کوما میں تقریباً دو سال بعد بیدار ہونا شروع ہوگیا تھا۔
مارٹن کا کہنا ہے کہ میرے کوما میں ہونے کی وجہ سے لوگوں کو لگتا تھا کہ شائد میں سن نہیں سکتا تو وہ میری موجودگی میں بہت سی باتیں کرتے تھے لیکن میں یہ سن رہا تھا اور مجھے بہت سی باتیں یاد ہیں۔
مارٹن کا کہنا ہے کہ لوگ میری لاشعوری کی وجہ سے مجھے غائب شمار کرتے تھے اور انہیں میرے ہونے یا نہ ہونے کی کوئی پرواہ نہیں تھی، ان کا کہنا ہے کہ مجھے بہت افسوس ہوتا تھا جب میری ماں یہ کہتی تھی کہ شائد میں مرجاؤں گا۔
مارٹن کی والدہ اس بات کیلئے افسوس کا اظہار کرتی ہیں کہ انہوں نے ایسا سوچا اور مارٹن کی موجودگی میں اس کا اظہار کیا تاہم مارٹن کا کہنا ہے کہ میں سمجھ سکتا ہوں کہ اس وقت میری ماں کس کرب میں تھی اور مجھے اس حوالے سے ان سے کوئی گلہ نہیں ہے۔