پاکستان کی نامور شخصیات میں ایک نام عبدالستار ایدھی کا تھا، جن سے ہر پاکستانی بے لوث محبت کرتا تھا، راہ چلتا ہر مسافر اپنی گاڑی روک کر ایدھی صاحب کو سلام کرتا تھا۔
ہماری ویب ڈاٹ کام کی اس خبر میں آپ کو ایدھی صاحب کے ایک ایسے ہی واقعے کا ذکر کریں گے، جس نے انسانیت کے مسیحا کو بھی افسردہ کر دیا تھا۔
ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں اپنی توجہ حاصل کرنے والے عبدالستان ایدھی سب کو جذباتی کر گئے مگر وہ اس وقت جب جذباتی ہوئے جب انہوں نے ایک بوڑھے شخص کی میت کو غسل دیا۔
ایک واقعہ سناتے ہوئے ایدھی صاحب نے بتایا کہ ایک مرتبہ میرے رضاکار ایک تازہ لاش کو لائے جو کہ ابھی ابھی انتقال کر گئی تھی، یہ لاش کسی بوڑھے شخص کی تھی، مگر یہ بوڑھا شخص کوئی عام شخص نہ تھا، بلکہ پڑھا لکھا اور رئیس معلوم ہوتا تھا۔
کلف لگے کپڑے، دھوبی سے دھلے ہوئے پینٹ کوٹ اور چاندی جیسے بالوں میں لگا تیل، س بوڑھے شخص کے رہن سہن کی ترجمانی کر رہا تھا۔ مگر جتنا بھی تیار ہو، چونکہ اس میں سے روح نکل گئی تھی، تو اب وہ صرف ایک لاش تھی۔
رضاکار نے کراچی کے ایک پوش علاقے کا نام لے کر بتایا کہ یہ لاش بنگلے کے پاس پڑی تھی، جیسے ہی رضاکار نے لاش کی طرف قدم بڑھائے تو اچانک ٹیکسی میں سے ایک نوجوان نکلا، گویا وہ ایدھی کے رضاکاروں کا ہی انتظار کر رہا تھا۔
جیب سے ایک لفافہ نکالا اور تھماتے ہوئے بولا کہ یہ تدفین کے انتظامات کے اخراجات ہیں، اس نوجوان کے الفاظ نے پیروں تلے زمین نکال دی تھی، "یہ میرے والد ہیں، ان کا خیال رکھنا، اچھی طرح غسل دے کر تدفین کر دینا"۔
لیکن ساتھ ہی ٹیکسی کے اندر سے آواز آئی کہ، تمہاری تقریر میں ہماری فلائٹ نکل جائے گی، اور پھر نوجوان فورا ٹیکسی میں بیٹھ کر رفو چکر ہو گیا۔
جب رضاکار کے اس لاش کی درد بھری کہانی کا منظر اپنی آنکھوں میں ایدھی صاحب قید کر رہے تھے تو ان کی آنکھوں میں تکلیف جھلک رہی تھی، وہ اس بوڑھے شخص کی لاش کو تک رہے تھے، اور سوچ رہے تھے کہ ان تمام لاوارث لاشوں کے وارث تم ہی ہو ایدھی صاحب، یہ لاش بھی شاید یہی کچھ کہنا چاہتی ہو۔
بوڑھے کی لاش کو غسل دیتے ہوئے ایدھی صاحب یہی سوچ رہے تھے کیسا بیٹا ہے، جسے والد کو قبر میں اتارنے سے زیادہ فلائٹ نکل جانے کا خوف ہے۔
ایدھی صاحب کی زندگی انسانیت کی ایسی ہی درد بھری اور خوفناک کہانیوں کے گرد گھومتی ہے، جہاں ہر روز انہیں انسانیت کا ایک نیا چہرا دیکھنے کو ملتا تھا۔
یہ واقعہ عرفان رضا ڈائریز نامی پیج پر اپلوڈ کیا گیا تھا۔