آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے بعد صورتحال بالکل واضح ہے، جسٹس یحیٰ آفریدی

image

جسٹس یحیٰ آفریدی نے کہا ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی گزشتہ روز کی پریس کانفرنس کے بعد صورتحال بالکل واضح ہے، کیا سویلینز کا افواج سے اندرونی تعلق جوڑا جا رہا ہے؟

سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت جاری ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔

سماعت کے آغاز میں چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میرے دلائل صرف سویلینز کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل کے بارے میں ہوں گے، سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہوسکتا۔ گزشتہ روز آئی ایس پی آرکی جانب سے پریس کانفرنس کی گئی ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر نے 102 افراد کے ٹرائل کی بات کی۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل نے گزشتہ روز ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کا حوالہ دیے ہوئے کہا کہ ‘میں آئی ایس پی آر کی جانب سےدیے گئے بیان پر قائم ہوں۔ عدالت میں وزارت دفاع کے نمائندے موجود ہیں وہ مزید بہتر بتا سکیں گے۔’

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ہم اس وقت موجودہ عدالتی نظیروں کا بھی جائزہ لے رہے ہیں، خاص طور پر ایف بی علی کیس کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ابھی تک کسی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل شروع نہیں ہوا، میں اس بات پر آج بھی قائم ہوں۔

وکیل عزیر بھنڈاری نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کیا کوئی جرم آرمی ایکٹ کے اندر آ سکتا ہے یا نہیں؟ یہ الگ سوال ہے لیکن دیکھنا یہ ہو گا کہ افواج سے متعلق جرائم پر ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں۔ لیاقت علی اور ایف بی علی کیسز کا حوالہ دیا گیا، وہ الگ الگ ہیں۔  ایف بی علی کیس نیکسز کا کیس ہے جبکہ لیاقت علی کیس میں ایسا نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ ایسا کیا ہے جس کا تحفظ آئین فوجی افسران کو نہیں دیتا لیکن باقی شہریوں کو حاصل ہے؟ وکیل عزیر بھٹاری نے کہا کہ فوجی جوانوں اور افسران پر آئین میں درج بنیادی حقوق لاگو نہیں ہوتے۔ پارلیمنٹ بھی آئینی ترمیم کے بغیر فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کی اجازت نہیں دے سکتا۔ 21 ویں آئینی ترمیم میں یہ اصول طے کرلیا گیا کہ سویلین کے ٹرائل کیلئے آئینی ترمیم درکار ہے۔

دورانِ سماعت جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ اگراندرونی تعلق کا پہلو ہو تو کیا تب بھی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو سکتا؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جنگ اور دفاع پاکستان کو خطرات جیسے اصول 21 ویں ترمیم کیس کے فیصلے میں طے شدہ ہیں۔

جسٹس یحیٰ آفریدی نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا سویلینز کا افواج سے اندرونی تعلق جوڑا جا رہا ہے؟ اٹارنی جنرل ملزمان کی حوالگی سے متعلق بتائیں کہ کونسا قانون استعمال کیا جارہا ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ابھی جو کارروائی چل رہی ہے وہ فوج کے اندر سے معاونت کے الزام کی ہے۔ ملزمان کی حوالگی سے متعلق قانون 2 ڈی ون کا استعمال کیا جارہا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ دلچسپ بات ہے کہ ہمارے پاس آفیشل سیکریٹ ایکٹ دستیاب ہی نہیں، بس ہوا میں باتیں کی جارہی ہیں۔ 2 ڈی ون کے تحت کون سے جرائم آتے ہیں؟ عدالت کی معاونت کریں۔


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US