میرے بچے بانیِ پاکستان کو اس لیے پہچانتے ہیں کیونکہ انھیں چپس چاکلیٹ خریدنے کے لیے جو نوٹ دیا جاتا ہے اس پر اُن کی تصویر ہوتی ہے، یا پھر وہ کسی ڈرامے میں سرکاری افسر کی نشت کے پیچھے لگی تصویر سے پہچان لیے جاتے ہیں کہ ہو نہ ہو یہ قائدِ اعظم ہی ہیں۔
ولادتِ عیسوی کے اعتبار سے 25 دسمبر کی مقبولِ عام عالمگیر اہمیت اپنی جگہ مگر پاکستان میں یہ تاریخبانی پاکستان محمد علی جناح کے یومِ پیدائش کے طور پر جانی جاتی ہے۔ اِس دن کی مناسبت سے صدر اور وزیرِ اعظم کے نام سے جو خودکار تہنیتی پیغامات میڈیا کے لیے جاری ہوتے ہیں، اُن کے کامے، فل سٹاپ بھی کم از کم چھ عشروں سے جُوں کے تُوں ہیں۔
یہ ریاستی تہنیتی پیغامات ’تہہ دل سے مبارکباد‘ سے شروع ہوتے ہیں، پھر بانیِ پاکستان کے احسانات و گراں قدر خدمات و عزمِ مصمم کے تذکرے کے بعد قوم پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگیاں محمد علی جناح کے اصولوں کے مطابق ڈھالے (یعنی یہ کام بھی قوم ہی کرے)۔
پیغام کے آخر میں کسی برس ’مسیحی بھائیوں‘ کو بھی کرسمس کی مبارکباد ٹِکا دی جاتی ہے اور کسی برس نہیں بھی دی جاتی۔ یہ منحصر ہے اُس سیکشن افسر کے ذاتی نظریہ پاکستان اور عقیدے پر، جو سال بہ سال ورثے میں ملی فائل کی عبارت احتیاط سے جاری کرتا ہے۔
بھلے وقتوں میں دورِ ایوبی سے پہلے نوآبادیاتی روایت کی تقلید میں 25 دسمبر سے نیو ائیر تک قومی سطح پر ہفتے بھر کی سرکاری تعطیلات ہوتی تھیں۔ اب صرف ’مسیحی بھائیوں‘ کو 26 دسمبر کی اضافی چھٹی ملتی ہے۔ آج کا نہیں معلوم، مگر پہلے سرکاری ٹیلی ویژن پر رات گئے ’مسیحی بھائیوں‘ کے لیے کرسمس کے تعلق سے 30 منٹ کی ایک نیم مذہبی ڈرامائی تشکیل بھی نشر ہوتی تھی۔
ہمارے بچپن میں چھٹی کے باوجود بچوں کو 25 دسمبر کی صبح سکول جانا پڑتا تھا جہاں ہیڈ ماسٹر یا ہیڈ مسٹریس پرچم کشائی کرتے اور ہم بچے اسمبلی لائن میں کھڑے ہو کر بانیِ پاکستان کے فرمودات سُنتے تاکہ اُن پر آگے چل کے عمل کر سکیں۔
میرے بچے بانیِ پاکستان کو اس لیے پہچانتے ہیں کیونکہ انھیں چپس چاکلیٹ خریدنے کے لیے جو نوٹ دیا جاتا ہے اس پر اُن کی تصویر ہوتی ہے، یا پھر وہ کسی ڈرامے میں سرکاری افسر کی نشت کے پیچھے لگی تصویر سے پہچان لیے جاتے ہیں کہ ہو نہ ہو یہ قائدِ اعظم ہی ہیں۔
یہی تصویر ایوب خان، یحییٰ خان، ضیا الحق اور پرویز مشرف کی کرسی کے پیچھے بھی ٹنگی ہوئی تھی۔ تھانے میں اُس ایس ایچ او کی کرسی کے پیچھے بھی لٹکی رہتی ہے جو کچھ دیر پہلے ہی ’پُولس مقابلے‘ سے فارغ ہو کر ہاتھ دھو رہا ہو یا بغلی کمرے میں کسی قیدی کی چھترول ہو رہی ہو یا وہ غصے یا خوف سے کانپتے کسی سائل یا سائلہ کو سمجھا رہا ہو کہ فلانے زور آور سے پنگا لے کر کیوں زندگی برباد کرنا چاہتے ہو، اُوپر والے نے تمہارے بیٹے یا بیٹی کی، بس اتنی ہی زندگی لکھی تھی اب اپنے دوسرے بچوں کا ہی خیال کر لو۔ (ایسے سمجھوتوں میں بھی پانچ ہزار کے نوٹ پر چھپے قائدِ اعظم ہی کام آتے ہیں)۔

اخبارات جب تک اطلاعات کی ترسیل کا بنیادی منبع تھے تب تک وہ بھی اُن قومی دنوں کی مناسبت سے خصوصی ایڈیشن نکالتے تھے۔ اب اشتہارات کے چشمے ہی خشک ہو گئے تو اخبار بھی ایک آدھ روایتی مضمون یا مختصر اداریے پر صبر شکر کر لیتے ہیں۔
سرکاری پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان قومی دنوں پر صبح سے شام تک قائدِ اعظم کی تعلیمات پر مبنی پروگرام سازی افورڈ کر سکتے ہیں مگر نجی چینلز کی تو معیشت ہی اشتہارات اور ریٹنگ پر ہے چنانچہ اُن کی ’حبِ قائد‘ محض خبرناموں کی حد تک ہے، یعنی کس کس نے مزارِ قائد پر پھول چڑھائے اور وہاں پر گارڈز کی تبدیلی کا منظر دیکھنے کے لیے کس قدر خلقت تھی وغیرہ وغیرہ ۔
ہو سکتا ہے کسی چینل کا کوئی روشن خیال مالک کرسمس کی مناسبت سے بھی چوبیس، پچیس دسمبر رات گئے ایک آدھ خصوصی پروگرام نشر کرنے کا سوچتا ہو مگر پھر اسے کوئی نہ کوئی سیانا نیوز ایڈیٹر یا ڈائریکٹر مارکیٹنگ سمجھا دیتا ہو کہ اس آدھ گھنٹے کے لیے اشتہار کون دے گا اور ریٹنگ کتنی آئے گی؟
حضرتِ عیسیٰ کی پیدائش اگرچہ دو ہزار برس پہلے ہوئی مگر کم و بیش تمام مسیحی فرقوں کا ماننا ہے کہ وہ مقبوضہ فلسطین کے شہر بیت الحم میں ہی پیدا ہوئے تھے تاہم یہ لگژری بانیِ پاکستان کو حاصل نہیں حالانکہ وہ آج سے صرف ڈیڑھ سو برس پہلے ہی پیدا ہوئے تھے۔
سنہ 1972 تک سندھ ٹیکسٹ بُک بورڈ کی ابتدائی جماعتوں کی درسی کتب میں جناح صاحب ٹھٹھہ کے قصبے ’جھرک‘ میں پیدا ہوتے رہے، پھر کراچی شہر کے قدیم محلے کھارادر کے وزیرِ مینشن میں پیدا ہونے لگے اور ابیہی قومی اتفاقِ رائے ہے۔
وہ الگ بات ہے کہ بہت سے جدید مؤرخوں نے کھوج لیا ہے کہ وزیر مینشن جناح صاحب کی پیدائش کے بعد تعمیر ہوا تھا۔
مگر یہ سب سوشل میڈیا کی پھیلائی ’خرافات‘ ہیں جو ہر قومی بیانیے کے بارے میں شکوک پیدا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ اصل بات یہ کہ قائدِ اعظم پیدا ہو گئے اور انھوں نے پاکستان بنا کر دے دیا تاکہ ہم اُن کی آنکھ بند ہوتے ہی اس پاکستان میں ہر طرح کے سیاسی، اقتصادی، سماجی اور مذہبی تجربات کُھلم کُھلا کر سکیں۔
قائدِ اعظمپیشے کے اعتبار سے وکیل تھے مگر آج کے وکلا کی ’خدمات‘ کے پیشِ نظر یہ بات بتانے سے زیادہ چھپانے کی ہے۔
رہی بات ایمان، اتحاد اور یقینِ محکمکی تو اسے کوئی بھی اسلام آباد ہائی وے سے آتے جاتے ایک اُونچی جگہ پر لٹکا ہوا دیکھ سکتا ہے۔