ایم کام اور ایل ایل بی کی ڈگریاں کرنے والی احمد آباد کی خاتون کے کاروبار میں آنے کے چھ ماہ بعد ہی ان کے لذیذ پکوان اب ناصرف انڈیا بلکہ بیرون ممالک بھی فروخت ہوتے ہیں۔

کاروبار شروع کرنے اور اسے کامیاب طریقے سے چلانے اور مارکیٹ میں اپنا نام بنانے میں برسوں لگتے ہیں لیکن احمد آباد کی خاتون سیجل پٹیل کے کھاکھرا بنانے کے کاروبار میں آنے کے بعد چھ ماہ کے اندر اندر ان کے کھاکھرے نہ صرف گجرات بلکہ بیرون ملک بھی فروخت ہونے لگے۔
وہ 30 مختلف اقسام کے کھاکرے بناتی ہیں۔ احمد آباد کا مضافاتی علاقہ ’سنتیج‘ چھوٹے بڑے صنعتی یونٹوں سے بھرا ہوا ہے اور سیجل پٹیل کا کھاکھرا بنانے والا کارخانہ بھی اسی علاقے میں ہے۔
کھاکھرا گجرات کا ایک لذیز پکوان ہے جو پاپڑ سے ملتا جلتا ہے۔
جیسے ہی آپ ان کے کارخانے کے باہر پہنچتے ہیں تو آپ کو باہر سے ہی کھانے کی خوشبو آ جاتی ہے۔ صبح نو بجے سیجل پٹیل کے ساتھ 20 خواتین یہاں کام کے لیے آتی ہیں اور شام چھ بجے تک 400 کلو یعنی بیس ہزار سے زیادہ کھاکھروں کو تیار کرتی ہیں۔
اس کے لیے آٹا گوندھنے سے لے کر کھاکھروں کو پکانے تک کا زیادہ تر کام مشینوں پر ہوتا ہے۔ اس میں استعمال ہونے والا مسالہ سیجل خود تیار کرتی ہیں۔
آپ کتنی طرح کے کھاکھرے تیار کرتی ہیں؟ اس کے جواب میں سیجل پٹیل مسکراتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’اگر آپ روزانہ ایک لذیذ قسم کا کھاکھرا کھائیں تو بھی اسے دوبارہ حاصل کرنے میں ایک مہینہ لگ جائے گا یعنی اس کا مطلب ہے کہ ہم 30 مزیدار پکوان یا کھاکھروں کی اقسام تیار کرتے ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’ہم جو ذائقے تیار کرتے ہیں ان میں میتھی، منچورین، پانی پوری، پون بھجی، پیزا، پنیر وغیرہ شامل ہیں۔‘
قانون کی تعلیم سے کھاکھرے بنانے کا کاروبار

سیجل پٹیل نے ماسٹرز ان کامرس (ایم کام) اور ایل ایل بی (قانون کی تعلیم) کی ڈگریاں کر رکھی ہیں۔ یہ کاروبار شروع کرنے سے پہلے وہ طلبہ کو پڑھاتی بھی تھیں مگر پھر سنہ 2020 میں ان پر فالج کا حملہ ہوا اور وہ چھ ماہ تک بستر پر رہیں۔
اس کے بعد جب ان کی صحت ٹھیک ہوئی تو انھوں نے فیصلہ کیا کہ اب پڑھانا نہیں بلکہ کوئی کاروبار کرنا ہے۔
اسی سوچ کے ساتھ انھوں نے سب سے پہلے سنیکس وغیرہ بیچنا شروع کیے اور اس سے انھیں خیال آیا کہ اگر ’ہم اسے تیار کر کے بیچیں تو اچھا منافع مل سکتا ہے۔‘
اس طرح انھوں نے کھاکھرا تیار کرنا شروع کیے۔ ڈیڑھ سال قبل جب انھوں نے کاروبار شروع کیا تھا تو پہلے مہینے میں وہ اپنے پکوانوں کے نمونے تیار کر کے گاہکوں کو چکھنے کے لیے دیتی تھیں۔
احمد آباد میں لاکھوں کھاکھرے کیسے بنتے ہیں؟
وہ کہتی ہیں کہ ’میں پہلے طلبہ کو پڑھاتی تھی۔ پھر کورونا کی وبا کے دوران دو سال تک گھر میں بیٹھی رہی اور پھر بیمار ہو گئی۔ اس دوران میں نے سوچا کہ مجھے کھانا پکانے کا شوق ہے، اس لیے میں کیٹرنگ کا کاروبار شروع کر سکتی ہوں۔ واقعی ہمارا اپنا کاروبار ہو سکتا ہے۔‘
وہ بتاتی ہے کہ ’اس طرح ڈیڑھ سال پہلے ہم نے یہ کام شروع کیا اور اور آج ہمارے کھاکھرے پورے گجرات میں جاتے ہیں، ممبئی، دہلی، پونے کے علاوہ امریکہ اور لندن میں بھی بھیجے جاتے ہیں۔‘
جب آپ نے کاروبار میں قدم رکھا تو آپ کے ذہن میں کون سے سوالات تھے؟
اس بارے میں بات کرتے ہوئے سیجل کہتی ہیں کہ ’کچھ ہچکچاہٹ اور خوف تھا کہ یہ کاروبار چلے گا یا نہیں؟ اگر ہم کھاکھرا تیار کر لیں تو بِکے گا یا نہیں؟ اس کام کے لیے خواتین ملیں گی یا نہیں؟ کھاکھروں کے ایک ہی ذائقے میں فرق پڑے گا یا نہیں؟ مسالے کیسے تیار کریں؟ سب ایسے سوالات وغیرہ تھے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’کاروبار کے پہلے چھ مہینے کچھ جدوجہد، کچھ کامیابی اور بہت سارے اتار چڑھاؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ کاروبار جمنے کے بعد ہمارے کھاکھرے باہر ممالک تک جانے لگے ہیں۔‘

کھاکھرا تیار کرنے کے تمام مسالے اور ترکیب سیجل نے خود ہی حاصل کی ہے۔ سیجل پٹیل کے شوہر سدھارتھ پٹیل کھاکھرا کی فروخت کو سنبھالتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں وزیر اعظم ایمپلائمنٹ جنریشن پروگرام کی حکومتی سکیم کے تحت اس کاروبار کو شروع کرنے کے لیے مالی مدد ملی تھی۔ ہمارے پاس وہاں 200 کلوگرام کی گنجائش کے ساتھ کھکھرا بنانے والی مشین ہے۔ 100 کلو کھاکھرا بنانے والی چھوٹی مشین بھی آتی ہے۔ تو یہ کاروبار پندرہ لاکھ کے سرمائے سے بھی شروع کیا جا سکتا ہے اور اس میں سرکاری سکیمیں بھی مدد کرتی ہیں۔‘
سیجل پٹیل مطمئن ہیں کہ اس کاروبار کے ذریعے 20 خواتین کو وہ روزگار کے مواقع فراہم کر رہی ہیں۔جب دیوالی جیسے تہوار قریب ہوتے ہیں تو ان کے کھاکھروں کی زیادہ مانگ ہوتی ہے اور ان دنوں ان کا کام بڑھ جاتا ہے اور وہ زیادہ پیسے کماتی ہیں۔