ان مزدوروں کے اغوا اور فرار کی کہانی جنھیں کنویں کھودنے کے لیے ’غلام بنا کر رکھا گیا‘

ان مزدوروں کو مہاراشٹر میں پہلے ایک ایجنٹ کی مدد سے اغوا کیا گیا اور پھر انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انھیں دن میں 12 سے 14 گھنٹے تک جبری مشقت پر مجبور کر کے رات کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا تھا۔
انڈیا
BBC

جون کی ایک شدید گرمی والی رات کو بھگوان گھکسے ایک جھٹکے سے نیند سے اٹھے اور اپنی زندگی بچانے کے لیے بھاگنے کا ذہن بنا لیا۔

گذشتہ ایک مہینے سے بھگوان کو چھ دیگر دیہاڑی دار مزدوروں کے ساتھ مغربی ریاست مہاراشٹر کی ایک انتہائی گندی جھونپڑی میں قید رکھا گیا تھا۔

ان مزدوروں کو ریاست کے عثمان آباد ضلع میں کچھ ٹھیکیداروں نے کنواں کھودنے کے لیے مزدوری پر رکھا مگر بعد میں انھیں جبری مشقت پر مجبور کیا گیا جو کہ انڈیا میں غیر قانونی ہے۔

بگھوان گھکسے نے ان کے ساتھ روا رکھنے جانے والے اس غیر انسانی رویے پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ انھیں مارا پیٹا جاتا، نشے پر مجبور کیا جاتا اور تھوڑی سی خوراک یا پانی کے عوض طویل وقت تک مزدوری پر مجبور کیا جاتا۔

ان کے مطابق انھیں رات کو ٹریکٹروں کے ساتھ زنجیروں سے باندھ دیا جاتا تاکہ وہ بھاگ نہ سکیں۔ اور جب وہ سو نہیں سکتے تھے، درد، بھوک اور تھکاوٹ سے چُور ہو جاتے تو ایسے میں وہاں موجود ان ٹھیکیداروں کے آدمی انھیں لاٹھیوں سے مارتے اور شراب پلا کر سکون دینے کی کوشش کرتے۔

ان کے مطابق ’میں جانتا تھا کہ یہاں موت تو سامنے ہے۔ لیکن میں موت کو گلے لگانے سے پہلے کم از کم ایک بار فرار ہونے کی کوشش کرنا چاہتا تھا۔‘

زیادہ تر دنوں میں بھگوان گھسکے اور دیگر قیدی کام، مار پیٹ اور کھانے پینے سے اتنے تھک جاتے تھے کہ ان کے پاس فرار کی منصوبہ بندی کے لیے کوئی ہمت نہیں رہتی تھی۔

لیکن 15 یا 16 جون کو انھوں نے ایک آخری بار فرار کا منصوبہ بنایا۔ بھگوان گھکسے کو اس فرار کے منصوبے کی صحیح تاریخ یاد نہیں ہے کیونکہ اب ان کے لیے دن رات کا حساب رکھنا مشکل ہو چکا تھا۔

بھگوان نے اندھیرے میں جھک کر اپنے پاؤں سے بندھی زنجیر پر لگے چھوٹے سے تالے کو تلاش کیا اور پھر اپنے ہاتھ کی ایک انگلی کو اس کے اندر کئی گھنٹوں تک ایسے گھماتا رہا کہ پھر یہ تالہ کھل گیا۔

جیسے ہی وہ اس کمپاؤنڈ سے باہر نکلے تو انھوں نے گنے کا ایک وسیع کھیت دیکھا اور اس کی طرف بھاگنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے مطابق ’مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کہاں ہوں۔ میں صرف اتنا جانتا تھا کہ مجھے گھر واپس جانا ہے۔ میں وہاں قریبی ریلوے ٹریک کے ساتھ آگے دوڑتا رہا۔‘

بھگوان اپنے گاؤں پہنچنے میں کامیاب ہوئے اور پولیس کو ساری بھیانک صورتحال سے آگاہ کیا، جس کے بعد پولیس اہلکاروں نے 11 دیگر مزدوروں کو انھی ٹھیکیداروں کے زیر انتظام دو الگ الگ کنوؤں سے بازیاب کروایا۔

اس مقدمے کے تفتیشی افسر جگدیش راوت نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پہلے تو ہمیں مزدور پر یقین نہیں آیا، لیکن جب ہم اس مقام پر پہنچے تو وہاں قید مزدوروں کے حالات دیکھ کر دنگ رہ گئے۔‘

کنواں
BBC

پولیس کے مطابق ان مزدوروں کو دن میں 12 سے 14 گھنٹے کنواں کھودنے پر مجبور کیا جاتا اور پھر اس کے بعد انھیں زنجیروں میں جھکڑ دیا جاتا۔ ان پر جسمانی اور ذہنی تشدد کیا جاتا۔ ان کے پاس بیت الخلا کی کوئی سہولت میسر نہیں تھی۔

انھیں اس کنویں کے اندر ہی اپنی حاجت پوری کرنی پڑتی، جسے وہ خود کھود رہے ہوتے تھے۔ اس کے بعد انھیں خود ہی اس کی صفائی بھی کرنا پڑتی۔

گہرے زخموں کے علاوہ ان میں سے زیادہ تر کی آنکھوں اور پاؤں پر چھالے پڑ گئے تھے اور ان میں سے کچھ مزدور ابھی بھی ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔

اس مقدمے میں انڈیا کے قانون کے تحت سات افراد، جن میں سے دو خواتین اور ایک بچہ شامل ہے، پر انسانی سمگلنگ، اغوا، تشدد اور ان مزدوروں کو قید رکھنے پر فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔ انڈین میڈیا نے بھی اس مقدمے کی خوب کوریج کی۔ ان سات افراد میں سے چار پولیس کی حراست میں ہیں جبکہ چھوٹا بچہ کم عمر بچوں کے حراستی مرکز میں ہے۔ جبکہ دو افراد ابھی تک مفرور ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ یہ غریب دیہاڑی دار مزدور ملازمت کی غرض سے عثمان آباد کے قریب احمد نگر شہر آئے تھے۔ یہاں ان سے ایک ایجنٹ نے رابطہ کیا جس نے بعد میں انھیں عثمان آباد سے تعلق رکھنے والے کچھ کنٹریکٹرز کو فروخت کر دیا۔ ان میں سے ہر ایک مزدور کو دو سےپانچ ہزار روپے میں فروخت کیا گیا۔

ایجنٹ نے ان مزدوروں سے یہ وعدہ کیا کہ انھیں کنواں کھودنے کے بدلے تین وقت کے کھانے کے علاوہ روزانہ پانچ سو روپے دیہاڑی ملے گی۔

جب یہ مزدور اس شرط پر راضی ہو گئے تو اس نے انھیں ایک عام مقام پر بلا لیا۔ انھیں رکشے کے اندر باندھ دیا اور پھر یہاں سے مختلف جہگوں پر لے جانے سے قبل انھیں شراب پلا دی۔

کنویں پر پہنچ کر ان ٹھیکیداروں نے ان کے فون ضبط کر لیے اور ان کی سرکاری دستاویزات ان سے چھین لیں۔

تین سے چار ماہ تک انتہائی بُری حالت میں رکھنے کے بعد ملزمان بغیر کوئی پیسہ دیے مزدوروں کو رہا کرتے تھے۔

پولیس افسر کے مطابق پولیس ابھی اس بات کی بھی تحقیق کر رہی ہے کہ اس ضلعے میں ایسا کوئی اور مقام تو نہیں ہے جہاں مزدوروں کو اس حالت میں رکھا گیا ہو۔

تین مزدوروں کے خاندان والوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے ان کی گمشدگی کی شکایت کی تھی مگر پولیس نے مقدمہ درج کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ بی بی سی کی طرف سے رابطہ کرنے پر پولیس نے اس پر اپنا مؤقف نہیں دیاہے۔

مگر ایک پولیس اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ اس مقدمے میں پولیس وقت پر کوئی کارروائی کرنے میں ناکام رہی۔

فرار کے کئی ہفتوں بعد اب ان مزدورں کا کہنا ہے کہ وہ ابھی بھی اس صدمے سے باہر نہیں نکل سکے ہیں۔ ان میں سے بہت سارے اپنی زندگی کو دوبارہ خوشحال بنانے کی کوششوں میں ہیں مگر ان کا کہنا ہے کہ جب ذہن میں اس تشدد کا خیال آتا ہے تو وہ پھر اس سوچ میں کھو جاتے ہیں۔

ان میں سے ایک مزدور بھارت راٹھور نے اپنے زخم دکھاتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمارے ساتھ غلاموں جیسا برتاؤ روا رکھا گیا۔‘ بھارت کے پاؤں پر گہرے چھالے اور آنکھ پر سوجن تھی۔

ان کے مطابق ’یہ ٹھیکیدار ہم پر تقریباً روزانہ ہی بہت زیادہ تشدد کرتے تھے اور ہمیں نمک اور بینگن کے چند لقموں کے ساتھ باسی روٹی کھلاتے تھے۔ کبھی کبھار قریبی کھیتوں سے کسان وہاں آ جاتے اور ہماری حالت زار دیکھتےمگر پھر بھی انھوں نے کبھی ہماری کوئی مدد کرنے کی کوشش نہیں کی۔‘

بھارت راٹھور کے مطابق وہ اپنے والد کی وفات کے بعد احمدنگر مزدوری کے لیے آئے تھے تاکہ اپنی بیمار ماں کا خیال رکھ سکیں۔ ’مگر خدا ہی جانتا ہے کہ میں نے وہاں کیسے دن گزارے اور کتنی صعوبتوں کا سامنا کیا۔‘

احمدنگر عثمان آباد مہارا شٹرا
BBC

بھارت کی کہانی ماروتی جٹالکر سے مختلف نہیں ہے جو خراب معاشی حالات کی وجہ سے نندد ضلعے سے اپنا گھر چھوڑنے پر مبجور ہوئے۔ وہ ایک چھوٹے کسان ہیں۔ ان کی بڑی بیٹی کی شادی مئی میں طے پائی تھی۔ گرمیوں میں گاؤں میں کوئی کام کاج نہیں تھا تو وہ بھی ملازمت کی تلاش میں احمدنگر چلے گئے اور ایک ایجنٹ کے ہاتھ لگ گئے۔

ان کے ذہن میں تھا کہ اگر انھوں نے کنویں پر 15 سے 20 دن بھی مزدوری کر لی تو پھر وہ اپنی بیٹی کی شادی کی تیاری کر سکیں گے۔

مگر ان کا خواب ادھورا رہگیا۔ جب وہ اس قید سے نکل کر گھر آئے تو انھیں پتا چلا کہ ان کی بیٹی کی شادی پہلے ہی ہو چکی تھی۔ ’میں اس دن بہت چِلایا۔‘

ماروتی کے مطابق جو دو ماہ کا عرصہ انھوں نے کنویں پر گزار دیا، اس کے بارے میں اب بھی جب ذہن میں خیال آتا ہے تو وہ خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔

ان کے مطابق ’وہ لوگ ہمیں کنویں پر صبح سویرے بھیج دیتے تھے اور رات گئے پھر وہاں سے واپس لے کر آتے تھے۔ ہم رفع حاجت بھی وہیں کرنے پر مجبور تھے۔ جب ہم کھانا مانگتے تو وہ ہمیں تشدد کا نشانہ بناتے تھے اور کہتے تھے کہ ہمیں صرف ایک وقت کا ہی کھانا مل سکتا ہے۔‘

اگرچہ درد ابھی بھی اپنی جگہ پر موجود ہے مگر اب ان مزدوروں کا کہنا ہے کہ وہ نئی شروعات کے بارے میں پر اُمید ہیں۔

گذشتہ ہفتے قومی انسانی حقوق کمیشن (این ایچ آر سی) نے ریاستی حکومت کی خوب خبر لی اور حکام کو ہدایت کی کہ وہ ملک کے لیبر قوانین کے تحت مزدوروں کو ریلیف فراہم کریں۔

بھارت راٹھوں کے مطابق وہ اپنے گاؤں میں ہی کوئی مزدوری تلاش کریں گے تاکہ آمدن کا ذریعہ پیدا ہوسکے۔ ’شاید زندگی جلد اچھی ہو جائے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts Follow